Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”مس سے میڈم تک کا ”غیر ترقیاتی فاصلہ“

ابوغانیہ۔جدہ
ٹاٹ اسکول کی پکی جماعت میں ہماری نگراں استانی مس شکیلہ اگر مونث نہ ہوتیں تو ہمارے لئے صد فیصد ”کرداری نمونہ “ہوتیں تاہم اس ”حالتِ تانیث“ میں بھی وہ 92.5فیصد ہماری آئیڈیل تھیں ۔ ہم نے ٹاٹ اسکول میں فیل شیل ہوتے ہواتے 12برس میں کچی سے لے کر میٹرک تک کا سفر طے کیا۔ اس عرصے میںہماری استانی بھی ”مس شکیلہ سے میڈم شکیلہ“تک کا ”غیر ترقیاتی فاصلہ“ طے کر چکی تھیں۔ درجن بھر برسوں پر محیط اس رفاقت میں ہم میڈم شکیلہ کی عظمت و فطانت کے دل و جان سے قائل ہو چکے تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آج انہیں دنیا سے رخصت ہوئے 2درجن برس بیت چکے ہیں مگر ان کی تدریب و تدریس آج بھی ہمارے کردار سے، گفتار سے، ہماری بحث سے تکرار سے، ہمارے اقرار سے انکار سے، ہمارے غصے سے پیار سے، ہماری جیت سے اورہار سے جھلکتی اور چھلکتی ہے۔
یوں تو ہم ہر زاویہ¿ حیات سے مس شکیلہ کی انفرادیت کے قائل تھے مگر ایک وصف ایسا تھا جو انہیںہماری دیگر استانیوں مس گلناز، مس شہناز، مس عقیلہ، مس نبیلہ، مس فریدہ، مس غریدہ،مس ندرت، مس مسرت،مس عابدہ، مس خالدہ،مس جینیفر میری اور مس ایلینا ٹیری، سب سے ممتاز کرتا تھا۔وہ وصف یہ تھا کہ پالنے میں پوت کے پاﺅں دیکھنے میں مس شکیلہ اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ٹاٹ اسکول کی کچی جماعت میں پروان چڑھنے والی مستقبل کی بیویوں اور شوہروںکے کرتوت دیکھ کر جو خدشات اور توقعات ظاہر کیں، وہ من و عن پوری ہوئیں۔مثلاًنسیمہ جوہماری ہم جماعت تھی، ایک روز اسکول کا کام کر کے نہیں لائی ۔ مس شکیلہ نے اسے بینچ پر کھڑے ہونے کی سزا سنائی مگر نسیمہ نے سزا بھگتنے سے انکار کرتے ہوئے دلائل دیئے کہ کل شمیمہ نے کام نہیں کیا تو آپ نے اس کوبینچ پر نہیں چڑھایا، پرسوں زرینہ نے کام نہیں کیا تو آپ نے اسے بینچ پر کھڑانہیں کیا، ترسوںثمرینہ نے کام نہیں کیا تو آپ نے اسے بینچ پر نہیں چڑھایا، چوتھ کرینہ نے کام نہیںکیا تو اسے آپ نے بینچ پر نہیں چڑھایا پھر میرے لئے ہی یہ” بینچ کھڑی“ سزا کس لئے؟ مس شکیلہ !آپ نے بھی دنیا سے جانا ہے، ایسی ناانصافی کریں گی تو یہاں بھی اور وہاں بھی سزا بھگتیں گی۔ مس شکیلہ نے نسیمہ کی تقریر سن کر فی تالی ایک مرتبہ واہ کہتے ہوئے 3 تالیاں بجائیں اورپھران الفاظ میں مخدوش توقع ظاہر کی کہ نسیمہ! تم نے اگر اپنے کرتوتوں کی اصلاح نہ کی تو شادی کے تیسرے روز ہی شوہر طلاق کا پھرّا تھمادے گا او ر پھر ساری زندگی بھابھیوں کے برتن دھو گی اور ان کے بچے پالو گی۔یقین جانئے آج نسیمہ 30سال سے بھابیوں، بھائیوں اور ان کے بچوں کی خدمات پر مامور ہے کیونکہ شادی کے تیسرے روز اسے طلاق”دستیاب “ہوگئی تھی۔
ہماری مس ٹیری انتہائی ظالمانہ طبیعت کی مالک تھیں۔ وہ انگریز تھیں مگر اُردو میں ریاضی پڑھاتی تھیں۔ وہ ہمیں”ٹو کا ٹیبل“ پڑھاتیں اور یاد کراتیں ”ٹو ونز آر ٹو“ پھر اگلے روز جب وہ ہم سے سبق سنتیں تو ہم انہیں”2کے ٹیبل “کی جگہ ”دو کا پہاڑا“ سناتے ”اِک دونی دونی“، یہ سن کر وہ بھِنّا جاتیں، سیخ پا ہوجاتیں اور الماری سے بید کی چھڑی نکال کرہر اس طالب علم پر ” شقا شق شقا شق“برساتیں جو ”ٹیبل“ کے نام پر پہاڑا سناتا۔مس ٹیری جب مار پیٹ کرچلی جاتیں توپٹنے والے چندبچے اور کئی بچیاں دھاڑیں مار مار کررونا شروع کر دیتیں۔” مس ٹیری کی شقا شق“کے باعث بچے بچیوں کی انگلیاں، ہتھیلیاں، بانہیں، بازو اور قطن و بطن جگہ جگہ سے متورم ہو جاتے۔ ان کی آہ و بکا سن کر شمیمہ کا دل بھر آتا ۔ وہ کولر سے پانی لے کر آتی ا ور اس میںروئی بھگو کر ٹکور کے لئے سب ”مرکھنو“کودیتی ۔ اگلا پیریڈ مس شکیلہ کا ہوتا۔وہ کمرہ¿ جماعت میں پانی اور روئی پھریریاں دیکھ کر کہتیں کہ شمیمہ یہ اسکول ہے یا بھٹیار خانہ؟ یہ سن کر شمیمہ کہتی کہ مس ! ان بے چاروں کو اتنی مار پڑی ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ جب ا نہیں ”ٹیبل“پڑھایا تو انہوں نے ”پہاڑا“کیوں سنایا؟ انہیں مس ٹیری کی شکل میں دکھ دینے والی تو موجود ہےں مگر ان کا درد دور کرنے اور انہیں راحت پہنچانے والا کوئی نہیں۔ یہ تو ناانصافی ہے۔ یہ سن کر مس شکیلہ پھر وہی حسب ِ طینت ایک ”واہ“ فی کس کے حساب سے 3تالیاں بجاتیں اور شبہ ظاہر کرتیں کہ دیکھنا شمیمہ بڑی ہو کر نرس بنے گی۔ ابھی کل ہی ہوا کے دوش پر ہمیں پیغام موصول ہوا کہ شمیمہ نے ایک چھوٹے سے شہر کے بہت بڑے سرکاری اسپتال میں 30سال تک نرس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعدبالآخر ریٹائرمنٹ لے لی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی باقیماندہ زندگی پوتا پوتی کھلاکر بسر کرنا چاہتی ہیں۔ 
ہماری جماعت میں ایک ہم رکاب ”سلیمہ“ بھی تھی۔وہ زبان و بیان کے حوالے سے خاصی حساس واقع ہوئی تھی۔ہر لفظ کے تلفظ پر غور کرتی، زبان کے تناظر میںدوسرے کے خیالات کو اُن کی اصل جگہ سے ہٹا دیتی مگر اپنی سوچ سے سرِ مُو نہ سرکتی۔ ہر شعر کا وزن پرکھتی، کوئی لفظ غلط بول دیتا تو اس پر خوب برستی۔ایک روز اس نے مس شکیلہ سے سوال کیا کہ مس! یہ بتائیے کہ ”پوت“ کا مطلب ہے بیٹا، اس کا مونث ”پوتی“ ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ” پوتی“ کا مطلب اپنی بیٹی نہیں بلکہ بیٹے کی بیٹی ہے جبکہ ”پوت“ کے معنی ہیں اپنا بیٹا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُردو کی لغت ترتیب دینے والوں کے اذہان بھی مردانہ تسلط کے پروردہ تھے۔ یہ تمام مونثوںکے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔ اسی لئے میں نے اس کا توڑ نکالا ہے کہ بیٹے کو ”ھی پوت“ کہا جائے اور بیٹی کو ”شی پوت“۔ یہ سن کر مس شکیلہ تو بھوچک ہو کر رہ گئیں۔ انہوں نے کہا دیکھنا سلیمہ بڑی ہو کر مصنفہ بنے گی۔پھر یوں ہوا کہ 27جولائی کو ایک تصویرہم تک پہنچی جس میں بے نقاب سلیمہ اپنی 23ویں کتاب کی نقاب کشائی کر رہی تھیں ۔
ٹاٹ اسکول میں ہی ہماری ایک ہم جماعت نعیمہ تھی۔ وہ کسی بھی بات کا سیدھا جواب دینے کی عادی نہیں تھی۔ ایک مرتبہ مس شکیلہ نے نعیمہ سے کہا کہ اردو کی کاپی لاکر دکھاﺅ۔ نعیمہ نے کہا کہ میں نے اردو کی کاپی نہیں بنائی۔مس شکیلہ نے آگ بگولہ ہو کر استفسار کیا کہ کیوں نہیں بنائی تو نعیمہ نے کہا کہ ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سِوا“، گھر میں ہزاروں کام ہوتے ہیں، بوڑھے والدین کا کہنا ماننا ، ان کی خدمت کرنا ،ان کی دلجوئی کرنا انتہائی اہم ہے۔خاندان میں رشتے بنانے اور نبھانے کے لئے شادی بیاہ جیسی تقریبات میں شرکت بھی ناگزیر ہوتی ہے،صحت برقرار رکھنے کے لئے بھر پور نیند اور سکون ضروری ہوتا ہے۔اگر کسی روز اُردو جو ہماری قومی زبان ہے اور جو وطن عزیز کے بچے بچے کو آتی ہے اگر اس کا کام نہیں ہو سکا تو کون سی قیامت آگئی، زمین پھٹ گئی، آسمان ٹوٹ پڑا، کیا ہوگیا؟اردو کاکام ہے ناں، آج نہیں تو کل ہو جائے گا۔ آپ کو بہت ہی جلدی ہے تو زبانی پوچھ لیں، سب بتا دیاجائے گا۔یہ سن کر مس شکیلہ نے آہ بھری اور کہا دیکھنا نعیمہ بڑی ہو کر ”سیاستداں “ بنے گی۔
کل ہی ہم ایک ٹی وی چینل پر سیاسی شو دیکھ رہے تھے جس میں” نعیمہ“ مہمان تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ موجودہ صورتحال میں استعفیٰ دینا بہتر نہیں سمجھتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ دیکھیں، ہماری جی ڈی پی میں 0.8کا اضافہ ہوا ہے، پر کیپیٹا انکم بھی 2.5سے متجاوز ہے۔ اینکر نے کہا کہ میں نے استعفے کا سوال کیا ہے۔ نعیمہ بولیں یہی تو آپ کا مسئلہ ہے، اپنی حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ اسی دوران پروگرام کا وقت ختم ہو گیا۔
 

شیئر: