چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ! برج الٹ گئے ہیں۔ 1971ء کی ذوالفقار علی بھٹو کی فتح یاد آگئی جب اہل خرد اسے دیوانہ، مجنون کہتے تھے اور اسکے لاکھوں کے جلسوں کو وقتی ابال قرار دیتے تھے ا ور بھٹو کا جواب ہوتا تھا ’’کیا میں کوئی دلیپ کمار ہوں جو یہ لاکھوں مجھے دیکھنے آجاتے ہیں؟ یہ مجھے اپنی محرومیوں، اپنے دکھوں میں شریک کرنے آتے ہیں۔ پرسوں 25جولائی کو بھی عجیب منظر تھا۔ سارا دن تلاطم تھا اور را ت گئے شکستہ انائیں تھیں او رسکوت تھا لیکن میں کسی اور موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں ان 272کا قصہ چھیڑنا چاہتاہوں جو پارلیمان کے لئے ارسال کئے گئے ہیں او رجو نیا پاکستان تعمیر کریں گے۔
دو مناظر! پہلا منظر قومی اسمبلی کے باہر میں نے دیکھا تھا۔ 2007ء کی بات ہے۔ میں اسلام آباد میں تھا خیال آیا کہ کابینہ کے ایک آدھ وزیر یا حزب اختلاف کے رہنما کا اردو نیوز کیلئے انٹرویو کرلوں۔ خورشید شاہ تک رسائی ہوگئی۔ وقت مقررہ پر قومی اسمبلی کے صدر دروازے پر پہنچا۔ حفاظتی دیوار عبور کرنے کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی۔ تب ایک اور ہی نظارہ تھا۔ میں اندر تھا اور باہر احاطے کے جنگلے کے دوسری طرف کوئی ایک سو کے قریب افراد سلاخوں سے چمٹے بیٹھے تھے، منتظر تھے۔ ان کے ہاتھوں میں عرضداشتیں تھیں۔ سوال کرنے پر سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ وہ باہر دھوپ میں بیٹھے اپنے اپنے علاقوں کے ارکان اسمبلی کے منتظر تھے۔ ان کے قضیے تھے اور عرضیاں ہاتھو ںمیں تھامے اس انتظار میں تھے کہ ان کے علاقے کا رکن اسمبلی احاطے میں داخل ہو تو وہ دہائی دیکر اسے متوجہ کریں اور گریہ وزاری کرتے ہوئے اسے درخواست تھمادیں۔ کوئی سائل سندھ کے کسی دور افتادہ گاؤں سے تھا۔ کوئی طور خم کے نواح سے اور کوئی بلوچستان کی سنگلاخ وادیوں سے پاؤں مجروح کئے پہنچا تھا۔ نادار، بے نوا اور درماندہ ہجوم دلوں میں امید کے دیئے جلائے باہر جنگلے سے چمٹا بیٹھا تھا۔ نگا ہیں نگراں تھیں کہ کب ان کا نمائندہ آئے تو اسے عرضداشت گزاریں ۔ان سے ووٹ لینے کے بعد نمائندے نے اپنی شکل تک دکھانا بند کردی تھی۔
دوسرا منظر ایک بھٹہ خشت پر دیکھا۔ کوئی 4برس ادھر کی بات ہے۔ موسم گرما کی تعطیلات میں پاکستان کا چکر لگا۔ ایک قطعہ اراضی خریدا تو کسی نے رائے دی کہ اس کی چار دیواری تعمیر کردی جائے ورنہ اگلے برس تک اس پر قبضہ گروپ اپنے مکانات تعمیر کرالے گا۔ بات معقول تھی چنانچہ اینٹوں کے حصول کیلئے قریبی بھٹے کا رخ کیا۔
ایک چوہدری صاحب بھٹے کے مالک تھے او روہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا۔ ایک نئی نویلی گاڑی آن رکی۔ چوہدری صاحب اترے اور بھٹہ کے 2مزدوروں کو گالیاں دینا شروع کردیں۔ انتہائی جدید اور نادر ذخیرہ دشنام تھا ان کی لغت میں۔ دونوں مزدور سر جھکائے چوہدری صاحب کے قدموں میں آن بیٹھے اور اپنی ماؤں ، بہنوں سے چوہدری صاحب کے قائم کئے گئے نئے رشتوں پر بے بسی سے ہنستے منمناتے رہے۔ ذخیرہ الفاظ ختم ہوا تو موصوف میری طرف متوجہ ہوئے۔ پھر شاید انہیں کچھ احساس ہوا۔ قہقہہ لگایا اور بولے ’’آپ مائنڈ نہ کریں۔ ان کا کام چوروں کو ہر روز سنانی پڑتی ہیں ورنہ یہ صحیح کام نہیں کرتے۔6،6 ماہ کی تنخواہ پیشگی لے لیتے ہیں۔ قرض لیتے ہیں اور پھر ادائیگی بھی نہیں کرپاتے۔ ہم ان کو سمجھتے ہیں اسی لئے ہر صبح انکا مزاج درست کرنا پڑتا ہے۔ اور دونوں بھٹہ مزدور سر جھکائے اپنے مالک کے قدموں میں ناداری اور عجز کی تصویر بنے بیٹھے تھے ۔ انکے رزق کا وسیلہ ان پڑھ تھا لیکن رکن اسمبلی تھا ہر طرح کی گالی اس کے لبوں سے آزاد ہوتی تھی کیونکہ وہ رکن اسمبلی بھی تھا پولیس اور شہر کے سارے ادارے اس کے اشارے پر رقص کرتے تھے کیونکہ وہ رکن اسمبلی تھا اور اس کا 18سالہ میٹرک فیل بیٹا اب ساتوں شرعی عیبوں کا ارتکاب کرتا تھا اور اسمبلی میں اپنے باپ کی نشست سنبھالنے کی تیاری کررہا تھا۔
25جولائی کو پارلیمان کی صورتگری ہوگئی۔ 272اب نئے پاکستان کے لئے قانون سازی کرینگے لیکن یہ پونے 3سو کے قریب لوگ جن میں سے اکثر نے یونیورسٹی کی عمارت بھی نہیں دیکھی ہیں کون؟ اور ایک معصوم شہری کا خون کیسے جونک بنے چوسیں گے؟ ایک نظر حقائق پر ڈالتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایک رکن کا ماہانہ مشاہرہ ایک لاکھ20ہزار روپے ہوتا ہے جبکہ قومی اسمبلی کا رکن 2لاکھ روپے ماہانہ وصول کرتا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھانے پر اسے ایک لاکھ روپے ماہانہ خصوصی الائونس سے بھی مستفید کیا جاتا ہے اور پھر اسے ایک دفتر بھی قائم کرنا اور اسے چلانا ہوتا ہے چنانچہ اس کے لئے اسے ماہانہ ایک لاکھ 40ہزار روپے کی ا دائیگی کی جاتی ہے۔ اسمبلی کے اجلاس کے لئے اسے اسلام آباد بھی آنا ہوتا ہے۔ اس زحمت کیلئے اسے 8روپے فی کلو میٹر سفری الائونس دیا جاتا ہے۔ یہ حساب لگایا گیا ہے کہ اسلام آباد تک اس شخصیت کو 6ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے چنانچہ اسمبلی آنے جانے کیلئے اسے 48ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں پھر اسے ان اجلاسوں کے دورانیہ کیلئے 500روپے فی یوم الگ ادائیگی کی جاتی ہے۔ اگر موصوف بذریعہ ریل گاڑی سفرپسند فرمائیں تو فرسٹ کلاس، ایئر کنڈیشن سفر بلا معاوضہ کریں گے۔ اگر بذریعہ ہوائی جہاز جائیں تو بزنس کلاس میں اہلیہ یا پی اے کے ہمراہ مفت سفر کریں گے۔ کسی بھی شہر میں گورنمنٹ ہاسٹل میں بلا معاوضہ اعلیٰ خدمات سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔ ان جیسوں کی حرکتوں سے ملک میں برقی توانائی کا بحران پیدا ہوچکا ہے تاہم اگر بجلی ہوئی تو موصوف رکن قومی اسمبلی ہر ماہ 50ہزا ر یونٹ بلا معاوضہ جلاسکیں گے۔ ٹیلیفون کی خدمات بھی انہیں بلا معاوضہ ہی حاصل ہونگی ۔ مقامی طور پر ایک لاکھ 70ہزار بار بلا معاوضہ اپنے احباب سے گپ شپ لگاسکیں گے۔ یوں فی رکن اسمبلی حکومت پاکستان کو ہر سال 3کروڑ 20لاکھ روپے میں پڑ رہا ہے اگر اسمبلی 5برس مکمل کرتی ہے تو ایک عالم فاضل زاہد و عابد رکن پر 16کروڑ روپے صرف ہوتے ہیں۔ کیلکولیٹر آپ کے پاس ضرور ہوگا۔ 272ارکان پر جتنا خاک نشینوں،ناداروں اور دن رات عرق ریزی کرنے والوں کا خرچ ہوگا ایک جنبش انگشت سے آپ معلوم کرسکتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہونگے جو الیکٹیبل ہیں اور برسوں سے منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ نسلوں سے خون آشام بنے قوم کی گردنوں پر سوار ہیں اور وہ بھی ہوں گے جو رگوں میں نئی آرزوئیں بسائے نیا پاکستان تعمیر کرنے آئے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ نئے وزیراعظم کو سب سے پہلا قدم یہ اٹھانا چاہئے کہ ان ارکان کے مشاہرے کم کرے۔ ان کے الائونس منسوخ کئے جائیں اور ان کو صحت اور تعلیم کی وہی سہولتیں مہیا کی جائیں جو ایک عام شہری کو دستیاب ہیں۔ ایک مثالی معاشرے میں ابو بکر صدیق ؓ کا کاروبار رکوا دیا جاتا ہے۔ طویل القامت عمر ابن الخطاب دور سے آتے اسلئے پہچانے جاتے ہیں کہ بیت المال سے دی گئی ان کے حصے کی چادر ان کے ٹخنوں سے اوپر رہتی ہے اور ایک بدو کھڑا ہوکر سرعام اپنے رہنما کی جواب طلبی کرسکتا ہے۔ نئے پاکستان کی تشکیل کا تب ہی آغاز ہوگا۔