عرب دنیا اور ایشین ٹائیگرز
محمد الحسانی ۔ عکاظ
تقریباً 40برس قبل جنوبی کوریا، ملائیشیا ، سنگاپور ، تھائی لینڈ اور تائیوان کے نام سے معروف ممالک کو ان دنوں ایشین ٹائیگرز کے نام سے جانا پہچانا جارہا ہے۔یہ ممالک پسماندہ ،غریب ، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے مفلس تھے۔یکے بعد دیگرے ان ممالک نے اپنے حال و مستقبل کی بابت سوچا ۔ اپنے تباہ کن حال کو ترقی یافتہ مستقبل میں تبدیل کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے۔ ان ممالک نے جاپان کو اپنے لئے مشعل راہ کے طور پر منتخب کیا۔ جاپان کے ساتھ متعدد معاہدے کئے جن کے بموجب مذکورہ ممالک کے نوجوانوں نے جاپانی فیکٹریوں میں تربیت کیلئے تعلیمی وظائف حاصل کئے۔ ان نوجوانوں نے جاپان میں تیار کی جانے والی گاڑیوں ، مشینوں اور آلات و پرزوں کو جمع کرنے کا ہنر سیکھا۔ کچھ عرصے بعد مذکورہ ممالک نے جاپان کو پیشکش کی کہ ہمارے نوجوان اپنے یہاں فاضل پرزے جمع کرنے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ یہ کام سستی اجرت پر انجام دیا جائیگا جس سے جاپان کی صنعتی لاگت کم ہوجائیگی۔ رفتہ رفتہ مذکورہ ایشین ممالک جاپانی سامان کے کچھ پرزے اپنے یہاں تیار کرنے لگے ۔ رفتہ رفتہ گاڑیاں ، بھاری سازو سامان اور تمام الیکٹرانک آلات اپنے یہاں تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران چین خواب غفلت سے بیدار ہوا اور اس نے ایشین ٹائیگرز کی ہمرکابی کی۔ گزشتہ 2عشروں کے دوران چین گھریلو سامان اور فرنیچر تیار کرکے پوری دنیا کو فراہم کرنیوالا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اب چین کارسازی کی دنیا میں پوری قوت کےساتھ قدم رکھ رہا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب چینی کار جاپان اور کوریا کی گاڑیوں سے ٹکر لینے لگے گی۔ چین نے شروع شروع میں معمولی درجے کی گاڑیاں تیار کیں اور اب وہ جاپان اور مغربی ممالک میں تیار کی جانے والی گاڑیوں اور انواع و اقسام کے آلات و سازوسامان کی مسابقت میں ٹکر لینے لگا ہے۔
مسلمانوں کو ملائیشیا پر فخر کرنا چاہئے۔ یہ ایشین ٹائیگرز میں سے ایک ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عصر حاضر میں ملائیشیا کی نشاة نو کے قافلہ سالار مہاتیر محمد نے ملائیشیا کی تعمیر و ترقی کا زبردست 20سالہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ وہ گزشتہ برسوں کے دوران اقتدار سے باہر ہوگئے تھے۔ اب ایکبار پھر ملک کے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ انہوں نے 20سالہ منصوبہ 1980ءکے دوران ملائیشیا کی پسماندگی اور غربت کو دیکھ کر اسے دور کرنے کیلئے بنایا تھا۔ انہوں نے ملائیشیا کے نوجوانو ں کو جاپان اور جنوبی کوریا سیکھنے او رتربیت کیلئے بھیجا تھا۔ ملائیشیا کے نوجوان جدید علوم و فنون ، گوناگوں تجربات اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں حاصل کرکے جاپان و جنوبی کوریاسے وطن واپس ہوئے۔ انہوں نے اپنے وطن کو ترقی یافتہ بنانے کا عزم کیا۔ انہوں نے ملائیشیا میں تیار کئے جانے والے آلات، مشینوں اور جمع کئے جانے والے پرزوں کے حوالے سے صارفین کی نظروں میں اعتبار کا مقام پیدا کیا۔ اس طرح ملائیشیا بھی ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
ملائیشیا نے اپنے یہاں ہونے والی ترقی اوراپنے یہاں جنم لینے والی پیشرفت دنیا کی نظروں میں لانے کیلئے مختلف قسم کے سیاحتی پیکیج تیار کئے۔ یہ پیکیج عرب اور مسلم خاندانوں کیلئے بڑے موزوں تھے۔ ملائیشیا نے اعلان کیا کہ وہی حقیقی ایشیائی ملک ہے۔ اس نے سیاحت کی دنیا میں عروج حاصل کیا۔اس کی بدولت ملائیشیا کے باشندے اپنے یہاں اور دنیا کے دیگر ممالک کے یہاں عزت اور وقار کی نظر سے دیکھے جانے لگے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے باہر کہیں جاتے ہیں تب بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ سب پڑھ کر سن کر اور دیکھ کر انسان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ عرب ممالک کا حال کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عرب ممالک سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے ایشین ٹائیگرز سے کافی آگے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرب دنیا کی ہمہ جہتی ترقی کی کوئی آرزو کی جاسکتی ہے؟ کیا عرب ممالک انفرادی سطح پر ہی سہی خواب غفلت سے بیدار ہوسکتے ہیں؟ کیا ناکامیوں اور نامرادیوں کے طوفان کے باوجود عرب دنیا کی بابت آرزو کی مشعل روشن کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭