عمران خان پر الزام تراشیاں کیوں؟
***صلاح الدین حیدر***
انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہوتا رہا اور کہا گیا اسے تو نظر انداز کیا جاسکتاہے کہ الیکشن میں کیچڑ بھی اچھلتی ہے، الزام تراشی بھی ہوتی ہے، مخالفین کے بخیے بھی اُدھیڑے جاتے ہیں لیکن جمہوریت کی خوبصورتی یہی ہے کہ الیکشن کے بعد جیتنے والے کو مبارکباد دی جائے، اور ہارنے والے خوش دلی سے شکست تسلیم کرکے معاشرے اور ملکی مفاد کو آگے بڑھانے میں شکوۂ تاریک ِشب کی بجائے اپنے حصے کی شمع جلاتے رہیں،کاش پاکستان میں ایسا ہوتا، یہاں جو جیتتاہے اس کی مدد کرنے کی بجائے ٹانگیں کھینچنے میں لوگ مصرو ف ہوجاتے ہیں، یہی کچھ بے چارے عمران خان کے ساتھ بھی ہورہاہے، پچھلے کئی روز سے مولانا فضل الرحمن نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ میں نتیجہ تسلیم نہیں کرتا دوبارہ الیکشن کرائے جائیں، پہلے ہی 25جولائی کے انتخابات میں 21ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں،کیا قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالا جاسکتا ہے ، کیا ہماری قومی ضروریات ، قومی غیرت اور حمیت کو زیب دیتاہے۔
مشکل یہ ہے کہ تاریخ سے تو پہلے ہی نا بلد تھے، اب پڑھنا لکھنا بھی چھوڑ دیا ہے،’’ ملک جائے جہنم میں، میری بلاسے، مجھے تو ذاتی مفادات سے مطلب ہے،‘ہم جیت گئے تو سب اچھا ، وگرنہ الیکشن صحیح نہیں ہوئے‘‘، یہی ہمارا بڑے عرصے سے وتیرہ رہا ہے، ہم آج بھی اس پر قائم ہیں ، قوم میں خدا کا شکر ہے بیداری پیدا ہوچکی ہے، لوگوں کو اپنے حقوق کا پوری طرح نہ سہی، بڑی حد تک ادراک ہوچکا ہے، وہ قائدین سے حساب مانگ رہے ہیں، لیکن جہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہو وہاںطوطی کی نقار خانے میں کون سنتاہے،باشعور لوگوں کی آواز صداباصحرا ثابت ہوتی ہے اور شاید کافی عرصے تک ایسا ہی ہوتارہے، پر مجھے بھی یقین کامل ہے کہ ہر شب کے بعد اجالاہے، ہر تنگ و تاریک راستے کے بعد روشنی ضرور ہے، خوشی اس بات کی ہے کہ تحریک ِ انصاف کے چیئر مین نے تمام الزامات سننے کے بعد بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ خاموشی سے سب تماشہ دیکھ رہے ہیں، لیکن کب تک آخر ایک دن تو انہیں لب کشائی کرنے ہی پڑے گی۔ان کی الیکشن میں کامیابی کے بعد پہلی اور اب تک ہونے والی واحد تقریر بے حد خوش کن اور خوبصورت تھی۔ انہوں نے تحمل سے اپنی ترجیحات کا ذکر کیا، اثر بھی اچھا ہوا، بیرونی دنیا سے انہیں پیغامات تہنیت موصول ہونا شروع ہوئے، سعودی عرب، نے آغاز کیا ، بعدمیں چین، نریندرمودی،متحدہ عرب امارت ، ایران، اور پھر ترکی کے صدر طیب اردگان، نے بھی اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ عمران خان کی عزت دنیا بھر میں ہے۔ وہ بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں،واحد بیان جسے پاکستانی عوام نے پسند نہیںکیا وہ تھا امریکی محکمہ خارجہ کا اور بعد میں وزیر خارجہ کا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے کر چین کے قرضے اداکرنے میں مصروف ہے، پتہ نہیں یہ بات کس طرح ایک کے دماغ میں سماگئی، چین کے قرضے اور آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرضوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، دونوں کے حسابات الگ الگ ہیں،دونوں میں کیا ربط ہے یہ امریکا بہادر ہی بتاسکتے ہیں، مجبوراً اس بیان کے بعد پاکستان کے نامزد وزیر خزانہ اسدعمر کو کہنا پڑا کہ انہیں آئی ایم ایف سے قرضے نہیں لینے ، وہ پاکستانیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں،بیرونی امداد پر انحصار کم سے کم کیا جائے گا۔
پہلی مثال تو نگراں حکومت کا فیصلہ ہے، جس کے تحت پیٹرول کی قیمتوں کی موجودہ شرح پرہی رہنے دیا گیا، اور اب لگتاہے کہ آنے والی حکومت پیٹرول اور پیٹرول کی مصنوعات کی قیمتوںپر مزید غور کرے گی،ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے گی، فضول خرچی کم کی جائے گی، شاہانہ طرززندگی کو خیر باد کہنا پڑے گا،ایک غریب ملک میں ایوانِ صدر، پرائم منسٹر ہاؤسز،گورنر ہاؤسز،کی کیا ضرورت ہے، ایران میں صدرِ مملکت اپنے گھر میں رہتاہے، سویڈن میں وزیر اعظم کو کوئی سرکاری سہولت حاصل نہیں، اُسے ملازم تک رکھنے کی اجازت نہیں، سابق سویڈن کے وزیر اعظم اولاف پالمے سائیکل چلاتے ہوئے ہلاک کردئیے گئے،ان کی اہلیہ ایک مرتبہ ڈاکٹر کے پاس صبح سویرے گئیں تو اولاف پالمے1975میں بھٹو صاحب کو ائیرپورٹ پر استقبال کرنے دس منٹ کی تاخیر سے پہنچے ۔انہوں نے بعد میں معذرت کی کہ اُن کی اہلیہ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ انہیں بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرنا پڑا اس لیے کچھ تاخیر ہوگئی، انگلینڈ کے وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ لب سڑک ہے، اس میں اتنی جگہ بھی نہیں پندرہ بیس فالتولوگ اندر آسکیں۔ نواز شریف جب وزیر اعظم کی حیثیت میں ڈیوڈکیمرون سے ملنے گئے تو اسحاق ڈار ، احسن اقبال اور کئی دوسرے وزرا ء سڑک پر کھڑے رہے کر ان کا انتظار کرتے رہے،اگر اسی طرح عمران نے دوسرے شعبوں میں بھی فضول خرچی اور لمبی تنخواہ والے افسران کی صحیح تنخواہ مقرر کی تو بڑی حد تک بچت ہوسکتی ہے،پھر بیرونی ممالکوں میں جمع شدہ ناجائزدولت جو 200بلین ڈالر کے قریب ہے،واپس لائی جائے تو ملک کو کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں، ملکی معیشت ویسے ہی اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی،اردو میں متواتر ،لحاظ اور احتیاط ایسے الفاظ ہیں جو کہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
اردو فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں پیدا ہوئی، لیکن لاہور میں پروان و پروش پائی،اردو زبان کو سننے بلوغت پر پہنچانے کا سہرا دلی اور لکھنو سے زیادہ لاہور کا ہے، اردو ہماری قومی زبان کہلائی اور پھر پورے پاکستان میں چترال سے لے کر کراچی کے ساحل تک بولی اور سمجھی جاتی ہے، عمران خان اردو کا استعمال بہت اچھی طرح کرتے ہیں،کہیں کہیں تلفظ کی غلطیاں ہوجاتی ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں، ایسا ہر ملک اور زبان کے ساتھ ہوتاہے۔انگلش میں بھی لندن کے رہنے والوں اورویلزاور اسکاٹ لینڈ کے رہنے والوںکے درمیان تلفظ کا بہت بڑا فرق ہے، خود انگلینڈ میں بھی کوکنی بولنے والوں کی زبان خود انگریز کی سمجھ میں نہیں آتی۔اس میں مذاق اڑنے کی چنداں ضرورت نہیں، عمران کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے خود ہی منہ کے بل زمین پر آپڑیں گے۔ جسکا ایمان اللہ واحدلا شریک پر ہے اس عمران کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ، عمران نے پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے کر جانا ہے،وہ ایسا کرکے رہیں گے، آپ دیکھتے جائیں۔