عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
موجودہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیادیں 17ویں صدی عیسوی کے دوران فرقہ وارانہ جنگوں اور یورپی ممالک میں خونریز معرکوں کے بعد تشکیل دی گئی تھیں۔ یہ بنیادیں وسٹ والیا معاہدے کے تحت مرتسم کی گئی تھیں۔ اس معاہدے نے 30برس سے زیادہ مدت تک چلنے والے جھگڑوں اور 80لاکھ سے زیادہ انسانوں کی جانی قربانیوں پر بین الاقوامی تعلقات استوار کئے تھے۔
معاہدے نے 3بنیادی اصول طے کئے ۔ ایک تو یہ کہ ہر ریاست خود مختار ہے۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی ملک کے اندرونی امور میں مداخلت منع ہے۔ تیسرا یہ کہ بین الاقوامی تناظر میں تمام ممالک یکساں حیثیت کے مالک ہیں۔ جدید دنیا میں بین الاقوامی تعلقات کی اساس یہی تین اصول بنے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ اصول ممالک کے درمیان لڑائی جھگڑے روکنے میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوئے۔ البتہ انہیں ہمیشہ بنیاد تسلیم کیا گیا۔ عصر حاضر میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابو الغیط ان تینوں اصولوں کو موثر بنانے کے اہم علمبردار ہیں۔ ان کا کہنایہ ہے کہ ان تینوں اصولوں کی پاسداری سے ہی دنیا بھر میں جاری جھگڑوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ زیادہ تر جھگڑے علاقائی اور بین الاقوامی دراندازیوں سے برپا ہورہے ہیں۔
میں نے اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ اسی کو مکمل کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مذکورہ تینوں اصول دائیں بازو کے ری پبلیکن رہنماﺅںکی سوچ سے کافی سے زیادہ قریب ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایک سے زیادہ مرتبہ بین الاقوامی تنظیموں پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور اسکی ایجنسیوں کے خلاف سخت سست زبان استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنظیمیں اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی تجارت کے معاہدے جیسے متعدد عالمی معاہدوں پر اعتراض کیا ا ور انہیں اپنے ملک کی سیاست کے منافی پالیسی اپنانے اور امریکہ کے اندرونی امور میں مداخلت سے تعبیر کیا۔ صدر ٹرمپ انہی بنیادوں پر یونیسکو سے انخلاءکر گئے۔ علاوہ ازیں پیرس کے ماحولیاتی معاہدے کی بیشتر دفعات سے پسپائی اختیار کرلی۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی ایجنسی کے تئیں اپنے عہد و پیمان کا دائرہ محدود کرلیا۔ وہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل سے بھی نکل گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے نیٹو کے حوالے سے امریکی عہد و پیمان پر نظر ثانی تک کی دھمکی دیدی۔ نیٹو کے بجٹ میں امریکہ کا حصہ 650ارب ڈالر کا ہے۔ بہت بڑا حصہ ہے۔
نیٹو کے رکن 27ممالک جتنا بجٹ مشترکہ طور پر دیتے ہیں اس سے دگنا بجٹ تن تنہا امریکہ دے رہا ہے۔ ٹرمپ نے نیٹو سے زیادہ اختیارات طلب کئے۔ نیٹو کے دیگر ارکان سے زیادہ بجٹ فراہم کرنے اور جنگ میں عسکری شراکت پر زور دیا۔ جرمنی اور جاپان کو زیادہ بجٹ فراہم کرنے کیلئے کہا۔اسی اصول کے تحت ٹرمپ شمالی امریکہ کی آزاد تجارت کی تنظیم کا بھی دھڑن تختہ کرنے والے تھے۔
مذکورہ تناظر میں ہم امریکہ کی نئی حکومت کو سمجھ سکتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ خلیج اور مشرق وسطیٰ سے متعلق جب کوئی بیان جاری کرتی ہے یا پالیسی کا اظہار کرتی ہے تو وہ خلیجی ممالک کیساتھ اپنے قریب ترین پڑوسیوں کینیڈا اورمیکسیکو جیسا رویہ اپنائے ہوئے ہوتی ہے۔ امریکی انتظامیہ ترکی اور قطر کو روسی میزائل400-S خریدنے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ وہ اسے روس کے سیاسی اثر و نفوذ میں توسیع کے ہم معنی سمجھتی ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ روس کی عسکری ٹیکنالوجی کو مضبوط بنانے والے اقدام کے مترادف مانتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ سابق امریکی صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی سے مختلف پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
میں اپنے گزشتہ کالم میں یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ ٹرمپ کی سیاست کے 5بنیادی ستون ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ امریکہ کی اقتصادی پوزیشن کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور حلیف ممالک سے ٹکر لینے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یورپی ممالک دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے فوائد لوٹ رہے ہیں اورمکمل آزاد تجارتی لین دین کی پالیسی اپنانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ٹرمپ کاچینیو ںپر الزام ہے کہ وہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی چوری اور معلومات کی منتقلی کیلئے امریکہ کے لچکدا رسسٹم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اورامریکہ کی حیثیت کو خطرات لاحق کررہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بہت سارے لوگ ٹرمپ سے متفق نہیں ہونگے لیکن یہ سچ ہے کہ ٹرمپ جو کچھ کررہے ہیں وہ انکی پارٹی کی غیر متزلزل پالیسی ہے۔ٹرمپ بحیثیت صدر دنیا بھر کے سامنے اپنے ذاتی نظریے سے کہیں زیادہ اپنی پارٹی کے افکار و خیالات کی ترجمانی کررہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ اپنی پارٹی کی پالیسی کے تحت ہی خارجہ سیاست میں بڑی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ جہاں تک ایران کا معاملہ ہے تو ٹرمپ انتظامیہ اپنے ملک کے مفادات کو خطرات لاحق کرنے والے ملک کی حیثیت سے ایران سے نمٹ رہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ایران دنیا کی بڑی طاقت سے معاملہ کرتے وقت اپنی حد میں رہے۔ اسی کے ساتھ ٹرمپ اپنے عرب اور یورپی حلیفوں سے چاہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭