ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ذکر و عبادت اور گناہوں سے مغفرت میں گزاریں، امام حرم
مکہ مکرمہ .... مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر فیصل غزاوی نے مسلمانان عالم سے کہا ہے کہ وہ ذی الحجہ کے ابتدائی 10ایام گناہوں سے مغفرت طلب کرنے ، کار خیر کثرت سے کرنے اور ذکر و عباد ت زیادہ سے زیادہ کرنے میں گزاریں۔ یہ ایام سب سے افضل اور سب سے ارفع اور سب سے اعلیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان سے زیادہ مبارک اور افضل ایام نہیں بنائے۔ یہ خیر و برکت اور صلاح و فلاح کے ایام ہیں ۔ جنہیں یہ ایام نصیب ہوجائیں اور وہ انکی خوشبو حاصل کرلے وہ کامیاب انسان ہے۔ تمام مسلمان ان ایام کو غنیمت جانیں اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں، کوتاہیوں، خامیوں اور لغزشوںکا تدار ک ان ایام کے ذریعے کرنے کا اہتمام کریں۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں ذی القعدہ کے آخری جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مبارک ایام عطا کئے ہیں۔ عظیم الشان موسم ہمیں بخش دیا ہے۔ یہ وہ ایام ہیں اللہ نے جن کی قسم قرآن میں کھائی ہے۔ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام کے فضائل بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان ایام میں اعمال صالحہ کا اجر و ثواب جتنا زیادہ ہے سال کے دیگر ایام میں اعمال صالحہ کا اتنا اجر نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے دریافت کیا تھا کہ جہاد کا اجر بھی ان ایام میں کارخیر کے اجر سے زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا تھا کہ جہاد کا اجر بھی ان ایام میں اعمال صالحہ کے اجر سے کم تر ہے الا یہ کہ ایک انسان جہاد پر نکلا ہو اور اس نے جان و مال کی قربانی دیدی ہو اورجان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو۔ امام حرم نے کہا کہ سب لوگ ذی الحجہ کے ابتدائی 10روز کے دوران اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءاور اسکی تکبیر و توحید کا اظہار زیادہ سے زیادہ کریں۔ پسندیدہ اعمال کا اہتمام کریں۔ ذکر اذکار کریں۔ سبحان اللہ، الحمد للہ ، اللہ اکبر پر توجہ مرکوز رکھیں۔ اللہ سے گناہوں کی مغفرت طلب کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت کریں۔روزہ رکھیں، صدقہ و خیرات کریں ۔ دعائیں زیادہ سے زیادہ مانگیں، والدین کیساتھ اچھائی کریں۔ صلہ رحمی پر توجہ دیں۔بھلائی کی تلقین کریں، برائی سے روکیں، توبہ کریں، سچ بولیں، اخلاص سے کام لیں، عفو و درگزر کا اہتمام کریں، نفرت، عداوت اور تمام برائیوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔ امام حرم نے بتایا کہ مسجد الحرام کو جو امتیاز حاصل ہے وہ دنیا میں موجود کسی بھی مسجد کو نصیب نہیں۔ یہاں نماز کااجر کسی بھی مسجد میں نماز کے اجر سے بہت زیادہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد الحرام میں ایک نماز کا اجر ایک لاکھ نمازوں کے برابر بتایا ہے۔ اگر کوئی شخص مسجد الحرام میں ایک نماز ادا کرلے تو گویا اس نے 55برس ، 6ماہ اور 20راتوں کی نماز کا اجر ایک ساتھ حاصل کرلیا۔ مسجد الحرام میں ایک دن اور ایک رات کی نماز کا اجر 277برس 9ماہ اور 10رات کے مساوی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اس سے زیادہ بھی اجر دے سکتا ہے۔ اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔ امام حرم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو منافع بخش تجارت کا عظیم موسم بخش رکھا ہے۔ اس موسم میں اہل خیر ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیکو کار اس میں منافع کماتے ہیں اور زمان و مکا ن کااعزازحاصل کرکے آخرت کیلئے ذخیرہ کرلیتے ہیں۔ زمان سے مراد یہ ہے کہ حج کا موسم محترم مہینوں والا ہے۔ یہ ذی قعدہ ، ذی الحجہ او رمحرم و رجب کے مہینے ہیں۔ یہ اللہ کے یہاں بیحد محترم ہیں۔ جہاں تک مکان کے اعزاز کا تعلق ہے تو مکہ مکرمہ پوری دنیا میں سب سے مقدس سرزمین ہے۔ ہر عابد و زاہد اسکا رخ کرتا ہے۔ اللہ نے یہاں کسی کا بھی خون بہانے ، کسی پر بھی ظلم کرنے، جانور کا شکار کرنے اور درخت کاٹنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ امام حرم نے کہا کہ حج موسم ہمیشہ ایسے ہی بابرکت ماحول میں آتا ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کے دل خانہ خدا کے لئے تڑپنے لگتے ہیں۔ اللہ کے ذکر سے انکی زبانیں تر ہوجاتی ہیں۔ خانہ کعبہ دیکھ کر اہل اسلام پر رقت اور خشیت طاری ہوجاتی ہے۔ حج کے شعائر تمام مسلمانوں سے تعظیم کے طلب گار ہیں۔ حاجیوں کے کاررواں دنیا کے ہر گوشے سے ترانہ بندگی پڑھتے ہوئے بیت اللہ کا رخ کررہے ہیں۔ ندائے ابراہیمی پر لبیک کہتے ہوئے ارض مقدس حاضر ہورہے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے حکم ربی پر دنیا بھر کے انسانوں کو حج پر آنے کی دعوت دی تھی۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میںمسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالمحسن القاسم نے جمعہ کا خطبہ حج کے فضائل کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے ذی الحجہ کے پہلے عشرے کو غنیمت شمار کرنے کا درس دیتے ہوئے کہا کہ یہ دن روزوں ، صلہ رحمی اور زیادہ سے زیادہ کارخیر کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حج اسلام کی ایک عظیم عبادت ہے۔ یہ اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ اللہ کو بیحد محبوب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حج مبرور “ کو سب سے بہتر عمل قرار دیا۔امام القاسم نے کہا کہ حج وہ عبادت ہے جسکی بدولت گناہوں اور غلطیوں کی آلودگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ حج کی بدولت سابقہ گناہوں سے اعمال نامہ صاف ہوجاتا ہے۔ حج سے انسان کا دل ، دماغ صاف شفاف ہوجاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص حج کرے اور بدکلامی ، بدعملی کا مرتکب نہ ہو وہ یہاں سے اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوکر لوٹے گا جیسا کہ اس دن تھا جس دن اس کے ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ امام حرم نے کہا کہ حج اسلام کی تمام عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ حج مسلمانان عالم کو انکے ماضی ، حال او رمستقبل کا حسین امتزاج بخشتا ہے۔ حج کا ہدف یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنے دین سے کامل وابستگی کا مظاہرہ کرے۔ قرآن و سنت کی پابندی کرے۔ سلف صالحین کے طریقے کو اپنائے۔ حج و ہ عبادت ہے جس میں قومی، لسانی ، جغرافیائی ، مالداری، ناداری اور رنگ و نسل کے تمام فرق مٹ جاتے ہیں۔ امام القاسم نے کہاکہ حجاج کرام خدا ترسی کو زاد راہ بنائیں۔ جو شخص بھی حج کا ارادہ کرے اسے پرہیز گاری کو اپنا شناخت بنالینا چاہئے۔ اسے برد باری سے کام لینا چاہئے۔ غصے سے نجات حاصل کرلینا چاہئے۔ حسن معاشرت کو اپنا تشخص بنالینا چاہئے۔ امام القاسم نے کہا کہ تمام بندگان خدا مناسک حج ادا کرتے وقت توحید کا مظاہرہ شایان شان طریقے سے کریں۔ سارے کام اخلاص سے انجام دیں۔ انہوں نے کہا کہ حج اللہ اور اسکے رسول کی پیروی کا نصب العین حاصل کرانے والا اسکول ہے۔ انسان کی کوئی بھی عبادت مکمل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اور کئے ہوئے طریقے کے مطابق نہ انجام دی جائے۔ امام القاسم نے کہا کہ حج کے عظیم مقاصد میں کثرت سے اللہ کے ذکر کا اہتمام شامل ہے۔ حج مختلف احکام کی اطاعتوں کا مجموعہ ہے۔حج قلبی اخلاص اور خود سپردگی چاہتا ہے۔ حجاج کا ایک جگہ جمع ہونا امت مسلمہ کی عظمت شان کی یاد دلاتا ہے۔ بہترین حاجی وہ ہے جو سب سے زیادہ پاکیزہ اخلاق سے آراستہ ہو۔ پاکیزہ اخلاق کی بدولت ہی بندہ بندگی کے مقام بلند پر فائز ہوتا ہے۔ حج کا پھل اصلاح ذات، تزکیہ نفس ، اللہ کی خوشنودی کے حصول اور جنت کمانے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جو یہ مقصد حاصل کرلے اسکا حج حقیقی معنوں میں حج ہے۔