عام خیال یہ ہے کہ اگر کہیں آگ لگی ہو تو سب سے پہلے اسے بجھانے کی تدبیر کرنی چاہئے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسے عناصر کی کوئی کمی نہیں ہے جو جلتی آگ میں تیل ڈال کر شعلوں کو بھڑکانے کا کام کرتے ہیں۔ یہی سب کچھ ملک کی شورش زدہ ریاست جموں وکشمیر میں ہورہا ہے کہ وہاں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی بجائے اس کی لپٹوں کو اونچا کرنے کی دیدہ ودانستہ کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ سب کچھ دیش بھکتی کے نام پر ہورہا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق بعض ایسی شرطوں کے ساتھ ہوا تھا جن کا باقی رہنا بے حد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان شرائط کو باقاعدہ دستور ہند کا حصہ بھی بنایاگیا تھا تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو حاصل مراعات باقی رہیں اور یہ سرحدی صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ لیکن پہلے تو وہاں انتخابی عمل میں ہوئی مسلسل دھاندلیوں کے نتیجے میں کشمیری عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ گیا اور دوسری طرف کشمیرکو خصوصی درجہ دینے والی دستور کی دفعات پر جارحانہ حملوں نے کشمیری عوام کے اندر عدم تحفظ اور خوف وہراس کا ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔ کشمیر کو خصوصی مراعات عطا کرنے والی دستور کی دفعہ 35Aکو ختم کرنے کی غرض سے سپریم کورٹ میں داخل کی گئی عرضیوں پر سماعت اگرچہ 27اگست تک ملتوی کردی گئی ہے لیکن اس دوران ریاست جموں وکشمیر میں بے چینی اور اضطراب کی خطرناک لہریں محسوس کی گئی ہیں۔ ریاست میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں نے دفعہ 35A کو ختم کرنے کی کوششوں کو مسترد کردیا ہے اور اسے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے کھلواڑ قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ سول سروسز کے امتحانات میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے آئی اے ایس افسر شاہ فیصل نے متنبہ کیا ہے کہ دفعہ 35Aکی حیثیت ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے نکاح جیسی ہے اور اگر اس دفعہ کو ختم کیاگیا تو ہندوستان سے کشمیر کا نکاح ٹوٹ سکتا ہے۔ کشمیر سے دفعہ 35Aکو ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ کشمیر میں بدامنی پھیلانے کا کاروبار صرف سرحد پار سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ملک کے اندر بھی کافی تعداد میں ایسی تنظیمیں اور عناصر موجود ہیں جو حالات کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس دفعہ کو چیلنج کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’وی دا سٹی زن‘ کی دلیل ہے کہ اس دفعہ میں موجود کئی شقوں کے ذریعے جموں وکشمیر میں ملک کے باقی شہریوں کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے لہٰذا اسے ختم کیاجانا چاہئے۔ ہم آپ کو یاددلادیں کہ دستور کی اس دفعہ کے ذریعے کشمیر کے اصل باشندوں کو کچھ خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ یعنی کشمیر سے باہر کے لوگ وہاں زمین وجائیداد نہیں خرید سکتے اور نہ ہی صوبائی حکومت کی اسکیموں سے فیضیاب ہوسکتے ہیں۔ باہرسے آئے ہوئے لوگوں کو سرکاری ملازمت بھی نہیں مل سکتی اور وہ ووٹ بھی نہیں ڈال سکتے۔ واضح رہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اس وقت کے ’وزیراعظم‘ شیخ محمد عبداللہ کی غیر آئینی معزولی کے بعد ملک کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعے دستور میں دفعہ 35Aکو شامل کیاگیا تھا ، جس کی رو سے ہندوستانی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔ یہ دفعہ دستور کی دفعہ 370سے علیحدہ ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں وکشمیر ملک میں ایسی واحد ریاست نہیں جہاں کے باشندوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔ اس قسم کی مراعات شمال مشرق کی کئی دیگر ریاستوں کو بھی دی گئی ہیں جن میں منی پور کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کو حاصل دستوری مراعات پر کبھی کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوتااور جب بھی بات کی جاتی ہے تو وہ کشمیر سے شروع ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جموں وکشمیر ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے، جہاں طویل عرصے سے داخلی خودمختاری کی تحریک چل رہی ہے۔ اب تک اس تحریک کے نتیجے میں ہزاروں انسان لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس شورش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ہمیں صبروتحمل سے کام لینا چاہئے لیکن ایسا کرنے کی بجائے ہم اشتعال اور تصادم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جب سے مرکز میں بی جے پی کی سرکار اقتدار میں آئی ہے اور بی جے پی کو پی ڈی پی کی مدد سے صوبائی حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے تب سے ریاست کی صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ اسی صورت حال کی دہائی دے کر پچھلے دنوں بی جے پی نے پی ڈی پی سے حمایت واپس لے کر وہاں گورنر راج کے قیام کی راہ ہموار کی تھی تاکہ وہ براہ راست ریاست کا نظم ونسق چلاسکے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جموں وکشمیر کے کسی حصے میں گولیاں نہ چلتی ہوں اور دوچار لوگ موت کے منہ میں نہ جاتے ہوں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دستور کی دفعہ 370حکمراں بی جے پی کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتی رہی ہے اور وہ اس دفعہ کو دستور سے خارج کرنے کیلئے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگاچکی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں یہ مطالبہ برسہا برس سے شامل ہے۔ جبکہ بی جے پی لیڈران کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ دفعہ 370 درحقیقت کشمیر اور ہندوستان کے درمیان الحاق کی ایک ایسی کڑی ہے جس کا برقرار رہنا بہر صورت ضروری ہے ۔ اس دفعہ کو ایک سیاسی فیصلے کے تحت دستور میں شامل کیاگیا تھا۔ دفعہ 35Aبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے حالیہ عرصے میں متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب ان دفعات کے ساتھ کھلواڑ ہوگا تو اس کا فائدہ جموں وکشمیر میں سرگرم علیحدگی پسند طاقتوں کو بھی پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں سرگرم مزاحمتی گروپوں نے اسے حکومت ہند کی توسیع پسندانہ سازش قرار دے کر تحریک کا بگل بجا دیا ہے۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام اپنا سب کچھ داؤ پر لگاسکتے ہیں لیکن کشمیر کی حیثیت اور ہیئت کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ دفعہ 35A کو ختم کرنے کی کوششوں کے خلاف پوری ریاست میں بے نظیر احتجاج درج کرایاگیا ہے۔ وہیں دوسری طرف کشمیر کی مزاحمتی قیادت نے ایک زبان ہوکر اپنی قومی وملی شناخت پر حملے کے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے۔