Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا جدید اور مہنگا ترین گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ ’ایک معمہ‘

چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا ایئرپورٹ شہر کے 90 ہزار افراد کی ترجیح نہیں ہے (فوٹو:اے پی)
جہازوں اور مسافروں کے بغیر پاکستان کا سب سے نیا اور مہنگا ترین ایئرپورٹ ایک معمہ ہے۔ چین کی جانب سے فراہم کردہ 24 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا ’نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ‘ غیرملکی ایئرلائنز کے لیے کب فعال ہوگا، کسی کو معلوم نہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گوادر کے ساحلی شہر میں واقع یہ ایئرپورٹ پسماندہ سمجھے جانے والے صوبہ بلوچستان کے حالات یا صورتحال کے بالکل برعکس ہے۔
نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے۔ سی پیک بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔
حکام کی جانب سے اس ایئرپورٹ کی تعمیر کو تبدیلی کی جانب اہم قدم سمجھا جاتا ہے تاہم، گوادر میں تبدیلی کے آثار بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔
یہ شہر قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہے، یہاں بجلی ہمسایہ ملک ایران یا سولر پینلز سے آتی ہے جبکہ صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔
چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا ایئرپورٹ شہر کے 90 ہزار افراد کی ترجیح نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد سمجھتے ہیں کہ ’یہ چین کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کے لیے گوادر اور بلوچستان تک محفوظ رسائی حاصل کر سکیں۔‘
بلوچستان ایک شورش زدہ صوبہ ہے جہاں کئی دہائیوں سے علیحدگی پسند ریاست سے اپنی ’آزادی‘ کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ان کی طرف سے صوبے سمیت دیگر علاقوں میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں اور چینی کارکنوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بلوچ اقلیت کے ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور انہیں ملک میں کہیں بھی دستیاب مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
پاکستان نے چین کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے گوادر میں سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ چوکیاں، خاردار تاریں اور فوجی اہلکار نظر آتے ہیں۔
گوادر کے رہائشی 76 سالہ خدا بخش ہاشم نے کہا کہ ’کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، کیا کر رہے ہیں اور آپ کا نام کیا ہے۔ ہم پہاڑوں یا دیہی علاقوں میں رات بھر پکنک کا لطف اٹھاتے تھے۔‘

سکیورٹی خدشات کے باعث بین الاقوامی ایئرپورٹ کے افتتاح میں تاخیر ہوئی (فوٹو:سی اے اے)

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں۔ پوچھنے والوں کو اپنی شناخت کرنی چاہیے کہ وہ کون ہیں۔‘
گوادر کے لوگ چین کی موجودگی سے بہت کم فوائد دیکھ رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سی پیک سے مقامی طور پر دو ہزار افراد کو روزگار ملا ہے تاہم، یہ واضح نہیں کہ اس سے مراد بلوچ شہری ہیں یا ملک کے دیگر حصّوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی۔ حکام نے اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی۔
خدا بخش ہاشم چاہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ کامیاب ہو تاکہ مقامی لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو ملازمتیں، امید اور مقصد ملے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب کسی کے پاس کھانے کو کچھ ہوگا تو وہ غلط راستے پر جانے کا انتخاب کیوں کرے گا۔ لوگوں کو پریشان کرنا اچھی بات نہیں ہے۔‘
سکیورٹی خدشات کے باعث بین الاقوامی ایئرپورٹ کے افتتاح میں تاخیر ہوئی۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے چینی ہم منصب لی چیانگ نے ایک ورچوئل تقریب میں اس ایئرپورٹ کا افتتاح کیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ضلعی صدر عبدالغفور ہوت نے کہا کہ ’گوادر کے ایک بھی رہائشی کو ایئرپورٹ پر کام کرنے کے لیے نہیں رکھا گیا، یہاں تک کہ ایک چوکیدار کے طور پر بھی نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دیگر ملازمتوں کو بھول جائیں، اس بندرگاہ پر کتنے بلوچ افراد ہیں جو سی پیک کے لیے بنائی گئی۔‘
دسمبر میں عبدالغفور ہوت نے گوادر میں حالات زندگی کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
یہ احتجاج 47 دنوں کے بعد اُس وقت رُک گیا جب حکام نے مقامی افراد کو مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد سے ان مطالبات پر عمل درآمد پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر خالد کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکومت بلوچ عوام کو کچھ دینے کو تیار نہیں ہے اور بلوچ، حکومت سے کچھ لینے کو تیار نہیں ہیں۔‘

 

شیئر: