تحریک انصاف اور گرتی معیشت
***احمد آزاد۔ فیصل آباد***
پاکستان میں اس وقت سیاسی گرماگرمی اپنی انتہاکو پہنچ چکی ہے ۔تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں سیاسی بازار میں اپنے دام بڑھانے کے چکروں میں نظر آرہی ہیں ۔آزاد پنچھی تحریک انصاف کے گھونسلے میں بیٹھنے کی کوشش میں کامیاب نظرآرہے ہیں ۔ناقابل شکست کہے جانے والے سیاسی رہنمائوں کو شکست فاش ہوچکی ہے ۔مولانا فضل الرحمان کو بھی سرکاری رہائش چھوڑنی پڑی ۔اسی طرح دوسرے بھی کئی نام ہیں جنہیں عوامی مینڈیت نہیں مل سکا ۔مسلم لیگ ن سے جہاں وفاق چھن چکا ہے وہیں صوبہ پنجاب کی وزارت بھی تحریک انصاف کی گود میں جاتی نظرآرہی ہے ۔پیپلز پارٹی نے اپنی ساکھ پھر بھی قدرے بہتر رکھی ہے کہ سندھ میں اس کی پوزیشن حکومت بنانے کی ہے ۔کراچی جیسے شہر میں ’’بھٹو زندہ ہے ‘‘کی جگہ ’’تبدیلی ‘‘نے قدم جما لئے ہیں۔
تحریک انصاف حکومت بنانے کے لیے نمبر گیم مکمل کرچکی ہے اور وفاق،پنجاب و کے پی میں حکمرانی کا تاج تحریک انصاف کے سر سجنے کے لیے تیاری کے مراحل میں ہے ۔ایسے میں اپوزیشن نے حکومت کو اگرچہ ٹف ٹائم دینے کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے اور الیکشن کمیشن کے خلاف نعرے لگاتے نظرآرہے ہیں ۔حالیہ انتخابات میں اگر آپ ایک چیز پر غور کریں تو واضح طور پر نظرآئے گی کہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو اگرچہ ووٹ دیا ہے لیکن وہ مجموعی طور پر ناکام ہوئی ہیں ۔متحدہ مجلس عمل، تحریک لبیک اور اللہ اکبر تحریک سرتوڑ کوشش کے باوجود قابل قدر کامیابی حاصل نہیں کرپائیں ۔موخرالذکر دونوں جماعتوں نے پہلے الیکشن میں ہی اپنا بھرپور پاورشو دکھلایا تھا جس سے امید کی جارہی تھی کہ تحریک لبیک اور اللہ اکبر تحریک چند ایک سیٹوں پر براجمان ہوجائے گی لیکن کامیابی نے ان کے قدم نہیں چومے ۔اب جب تحریک انصاف کی حکومت بننے جارہی ہے تو دوسری جماعتوں کو چاہیے کہ ممکنہ طور پر ان کی اچھی چیزوں کی حمایت کریں اور اختلافی چیزوں پر قانون کے اندر رہتے ہوئے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاج کریں۔ حالیہ انتخابات میں اک بات بڑی واضح ہوچکی ہے کہ عوام نے ریاستی اداروں کے خلاف ہورہی محاذآرائی اور بیانیے کو مسترد کردیاہے ۔عوام کرپشن سے چھٹکارہ چاہتی ہے اور پاکستان کو اپنے پائوں پرکھڑی ہوئی ریاست کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں ۔
نئی بننے والی حکومت کو سب سے بڑا مسئلہ زرمبادلہ کا درپیش ہوگا جس کے لیے انہیں اپنی ساری قوت خرچ کرنا ہوگی ۔قرضوں کی بڑھتی ہوئی شرح ،بیروزگاری اور ان سے جڑے دیگر مسائل کی وجہ سے پاکستانی عوام کا معیارزندگی بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔دوسرے ممالک میں رکھا گیا پیسہ کس طرح سے ملک واپس لانا ہے یہ سب سے بڑا سردرد ہوگا ۔عام پاکستانی تو ملک کی خاطر زرمبادلہ بھیجنے پر راضی ہوجائے گا لیکن کاروباری ٹائیکون ،سیاسی پنڈت اور دیگر نامی گرامی لوگ شاید اس بار بھی اپنا پیسہ باہر ہی رکھنے کو ترجیح دیں ۔ذرائع کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے بانڈز جاری کرنے کا پروگرام ہے ۔جس سے ایک ارب 20کروڑ ڈالر تک وصول ہونے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے ۔ابتداء میں بانڈز خلیجی ممالک میں اور پھر برطانیہ وامریکامیں جاری کئے جائیں گے ۔ بانڈز کے حوالے سے پیشرفت تیزی سے جاری ہے جس کی اب صرف منظوری ریگولیٹری سے لینا باقی ہے ۔دوسری طرف امریکہ کی آئی ایم ایف کو ڈکٹیشن دینے اور پاکستان کو قرض دینے کے معاملے میں روڑے اٹکانے کے بعد اسلامی برادر ملک تعاون کرنے کے حوالے سے آمادگی کا اظہار کررہے ہیں ۔بین الاقوامی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق’’ پاکستان اسلامی ترقیاتی بینک سے 4ارب ڈالر سے زائد قرضہ لینے کا اراد ہ کررہا ہے اور بینک نئی پاکستانی حکومت کے آنے کا انتظار کررہا ہے ۔رپورٹ میں یہ بھی موجود ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بجائے دیگر ذرائع سے بھی مالی تعاون حاصل کرنے پر غور کررہا ہے ۔اگرچہ یہ تمام معاملات پاکستانی ضروریات کو پورا تو نہیں کرسکتے تاہم انہیں کم کرنے میں اہم کردار ضرور اداکرسکتاہے ۔‘‘دوسری طرف پاکستان کے اندر سے بھی آئی ایم ایف کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار مختلف مواقع پرسامنے آتا رہتا ہے ۔پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ (پیاف) کے چیئر مین پیاف عرفان اقبال شیخ کہتے ہیں کہ نئی آنے والی حکومت 12 ارب ڈالرز زرمبادلہ کے حصول کے لئے آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لے چونکہ آئی ایم ایف و دیگر اداروں سے قرضوں کے حصول میں ان کی شرائط کے مطابق ملک میں ٹیکسوں کے نفاذسے عوام اور صنعتی شعبہ پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے۔آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج سے وقتی طور پر معاشی ریلیف ملے گا مگر نتائج خطرناک ہونگے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ آئی ایم ایف نے جس ملک کے ساتھ بھی قرضوں کے نام پر اصلاحات کی ہیں، ان ممالک کے مسائل بڑھے تو ضرور ہیں مگر کم نہیں ہوئے ۔
ایسے میں اگر اسلامی ممالک پاکستان کے ساتھ چلنے اور مالی مسائل کو کم کرنے کے خواہاں ہیں تو پاکستانی قیادت کو بھی اس حوالے سے مثبت کردارکرنا ہوگا۔جہاں ملکی بینکوں نے قرضے دینے سے معذرت کرلی ہو وہاں اسلامی ترقیاتی بینک کے حوالے سے خبروں کا آنا خوش آئند ہے لیکن متوقع حکومت کو اپنے خرچ کم سے کم کرنا ہوں گے۔ جہاں ایک کروڑ سے کام چل سکتا ہووہاں 10کروڑ لگانے کی روش کو ترک کرنا ہوگا ۔سادگی کو اپنانا ہوگا، اخراجات کو کم سے کم کرنا ہوگا۔ بیرونی دوروں کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم کو کم ترین سطح پر لانا ہوگا۔ماضی میں ملک کے مسائل پر اگر 10روپے خرچ کیے گئے ہیں تو 20سے بھی اوپر روپے اپنی جیب میں ڈالے گئے ہیں۔جس کے لیے عوام کہتی ہے کہ جی! اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے ۔تحریک انصاف کے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ بوجھ متوقع وزیرخزانہ کے کندھوں پرہی ہوگا۔ متوقع وزیرخزانہ کے سامنے آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں سے لیے گئے قرضوں کو فُل اسٹاپ لگانا ،تیل کی قیمتوں میں ٹیکسوں کو کم سے کم کرنا ،200ارب ڈالر کے قریب باہر چھپائی گئی دولت کو وطن واپس لانا،بجلی وگیس کی قیمتوں میں ریلیف دینا،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ریلیف دے کر پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنا اور گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے جیسے پہاڑ کھڑے ہیں ۔گزری حکومت نے مالی خسارہ 7.1فیصد پرچھوڑا ہے جبکہ ٹارگٹ 4.1فیصد تھا ایسے میں حکومت کے ملتے ہی ریلیف کا دیا جانا ناممکنات میں سے ہے ۔اداروںکو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہوگا جس کا عندیہ تحریک انصاف والے دے چکے ہیں لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔ملک کی کایا پلٹنے کی باتیں ماضی قریب وبعید میں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن تحریک انصاف اگر اپنی بقاء چاہتی ہے تو اسے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پوراکرکے دکھانا ہوگا ۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے جس طرح سے تحریک انصاف پر اعتماد کیا ہے اب تحریک انصاف کا حق بنتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے ۔بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے سفیر ہوتے ہیں یہ وہاں پر مختلف لوگوں سے مختلف مواقع پر ملتے ہیں اور اگر مستقبل کی حکومت ان کی توقعات پر پورااترنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ہمیں کچھ ممالک کی طرح لابی گروپ بناکر اپنی بات منوانے اور راہ ہموارکرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ یہ کام آپ کے یہ دوسرے ملکوں میں بیٹھے پاکستانی کرلیا کریں گے۔