Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منیٰ میں عمارتوں کا کوئی متبادل نہیں

محمد الحسانی ۔ عکاظ
حالیہ ایام میں اخبارات نے ایک خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر محمد صالح بنتن نے منیٰ میں حجاج کیلئے نصب کئے جانے والے ایک ایسے خیمے کا دورہ کیا جہاں بنگ بیڈ لگائے گئے ہیں۔ یہ اقدام منیٰ میں ضیوف الرحمان کی رہائش کی گنجائش دگنی کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔ 
اس قسم کی کوششیں منیٰ میں حجاج کی رہائش کے مسئلے کا عمدہ اور اصولی حل نہیں۔ اب جبکہ سعودی وژن 2030کے مطابق حجاج کی تعداد میں اضافہ ہونا ہے سالانہ60لاکھ تک حاجیوں کی رہائش کا بندوبست کرنا ہے۔ ایسے عالم میں بنگ بیڈ منیٰ میں حجاج کی رہائش کا عملی حل نہیں ہوسکتا۔ میرے نکتہ نظر سے جن لوگوں نے بنگ بیڈ کا تصور پیش کیا وہ 5عشرے قبل ایک معلم کی اس کوشش سے ملتا جلتا ہے جس نے 2منزلہ خیمے نصب کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا تھا کہ پہلی منزل میں سکونت پذیر حاجی زیریں منزل کے حاجیوں پر گر گئے تھے۔ کئی لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے تناظر میں 2منزلہ خیمو ں کا خیال ختم کردیا گیا تھا۔ آگے چل کر حج ریسرچ سینٹر نے کئی عشرے قبل مذکورہ تصور کے احیاءکی ایک بار پھر کوشش کی تاہم اس وقت کے وزیر داخلہ شہزاد نایف بن عبدالعزیز نے حج ریسرچ سینٹر کے اسکالرز کو مشورہ دیا تھا کہ آپ لوگ زیادہ حقیقت پسندانہ افکار اور منصوبے پیش کرنے کا اہتمام کریں۔ سعودی سربرآوردہ علما ءبورڈ نے 1384ھ کے دوران ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔ انہوں نے منیٰ میں حجاج کی رہائش کیلئے عمارتیں بنانے کی اجازت دی تھی۔ صرف ایک رکن نے اس فتوے پر اعتراض ریکارڈ کرایا تھا۔ شاہ فیصل رحمتہ اللہ علیہ نے جو سال مذکور کے دوران ہی برسر اقتدار آئے تھے سربرآوردہ علماءبورڈ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے وزیر داخلہ کے سپرد کردیا تھا۔ وزارت داخلہ ہی سے مشاعر مقدسہ ، بلدیاتی کونسلیں اور میونسپلٹیاں جڑی ہوئی تھیں۔ یہ سچ ہے کہ منیٰ میں عمارتوں کی تعمیر کا منصوبہ اس وقت نافذ نہیں کیاگیا۔ آگے چل کر منیٰ میں عمارتیں بنانے کی سرکاری منظوریاں یکے بعد دیگرے آتی چلی گئیں۔ ان سب کی بدولت منیٰ کے دامن میں 6عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ انکا بجٹ پینشن فنڈ اور سماجی کفالت فنڈ نے مہیا کیا تھا۔ ان 6عمارتوں کے سوا کوئی اور عمارت وہاں نہیں بنائی گئی۔ 
منصوبہ سازوں کے یہاں اس حوالے سے بہت سارے سوچے سمجھے افکار موجود ہیں۔ انکی بدولت منیٰ میں لاکھوں ضیوف الرحمان کے قیام کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ منصوبہ سازوں نے ایک رائے یہ دی ہے کہ منیٰ کو 10چوکور یا مستطیل شکل میں تقسیم کردیا جائے۔ اول اور دوم مزدلفہ کی جانب سے ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو ہوں۔ اگر چوکور یا مستطیل شکل میں خیمے نصب ہوں اور ان میں ایک لاکھ حاجیوں کی رہائش کی گنجائش بنتی ہو تو 5منزلہ عمارتیں بنانے پر اتنی ہی جگہ میں 5لاکھ عازمین کو ٹھہرایا جاسکے گا۔ گویا پہلے دو چوکور یا مستطیل حصوںمیں 10لاکھ حاجی رہائش پذیر ہوسکیں گے۔ پھر اسی طرح سے چوکور یا مستطیل شکل کی عمارتیں تعمیر ہوں اور اس طرح پورے منیٰ میں اسی انداز میں عمارتیں قائم کردی جائیں تو ان میں 50لاکھ سے زیادہ عازمین کو کھپایا جاسکے گا۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان عمارتوں کی زمینی منزل ان داخلی عازمین کیلئے مختص کردی جائے کہ جو پہلے آئے وہی وہاں رہائش کا حقدار ٹھہرا دیا جائے۔ ہر عمارت کی باقی ماندہ 5منزلیں باہر سے آنے والے حجاج کیلئے مخصوص ہوں۔ منصوبہ ساز انجینیئر عمارتوں کے درمیان سڑکوں کے رقبے میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔ منیٰ میں انڈر پاس قائم کرکے ٹرانسپورٹ سمیت مختلف خدمات کے منصوبے نافذ کئے جائیں۔ علاوہ ازیں منیٰ کے پہاڑوں کے دامن میں فلک بوس عمارتیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں تعمیر کی جائیں جہاں لاکھوں حجاج کو ٹھہرایا جاسکے گا۔ میرا خیال ہے کہ ولی عہد کی زیر صدارت مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ ڈیولپمنٹ رائل اتھارٹی کا قیام اسی قسم کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کیاگیا۔ اتھارٹی اس طرح کے افکار کو بہتر شکل دیکرنافذ کرسکتی ہے ۔ جو افکار قابل عمل ہوں انہیں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ اچھے کام کی توفیق دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: