حج مجموعۂ فضائل اور رحمات ہے، مالی وبدنی عبادت ہے ، یہ بندے کے رب تعالیٰ کے ساتھ محبت کا اور اس کیلئے قربانی کا مظہر ہے
* * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔مکہ مکرمہ* * *
الحمد للہ ہم حرمت والے مہینوں میں داخل ہوچکے ہیں ۔حرمین شریفین میں اکناف عالم سے رحمان کے مہمانوں کی آمد ہے ۔ہم ان خوش قسمت اللہ تعالیٰ کے بندوں کو مبارک باد پیش کرتے ہیں جنہیں رحمن نے اپنی میزبانی کاشرف بخشا اور انہیں دھرتی کے مقدس ترین مقام پر حاضر ہونے کی توفیق مرحمت فرمائی۔
’’حج‘‘ ایک عظیم مجموعۂ فضائل عبادت ہے۔بندہ اس کے لئے اپنا قیمتی وقت فارغ کرکے کثیر مال بھی صرف کرتاہے ،وہ اپنے نفس کے خلاف اپنی جان پر رضائے رحمن کی خاطر تحمل بھی کرتاہے لہذا روشنی کے صفحات پر حج کے بارے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
آغاز’’ عبادت‘‘ کے مفہوم اور بندہ کے اللہ تعالیٰ کیلئے اخلاص اور ا س کے ثمر وفوائد سے کرتے ہیں ۔
’’عبادت‘‘ بندہ کی طرف سے معبودبرحق اللہ تعالیٰ جل شانہ کی الوہیت وعظمت کا اقرار اور بندے کی بندگی اور اس کی کامل غلامی کا اعتراف ہے۔ جب معبود برحق صرف وہی ذات ہے جس کا اسمِ ذات ’’اللہ عز وجل‘‘ ہے تو اسکی الوہیت کا اثبات اور اس کے غیر کی نفی کلمۂ توحید ٹھہرا۔ اس کلمہ میں نفی ہے غیر اللہ کی الوہیت کی اور اثبات ہے صرف اُس کی معبودیت کا ۔پھر اس میں نفی مقدم ہے اثبات سے جس میں یہ تعلیم ہے کہ ایمان باللہ کا تحقق صرف اس وقت ہوگا جب ہر طاغوت (یعنی غیر اللہ کی معبودیت) کی نفی ہو ،ارشاد ربانی ہے :
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکا رکرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اسنے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔ ‘‘( البقرہ256)۔
حق باری تعالیٰ پر ایمان اور مضبوط حلقے کو تھامنے والا صرف وہی ہے جو اولاً ہر غیر اللہ کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے ۔اما م بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب التوحید میں یہ عنوان باندھا ہے کہ ’’بندوں کا اولین واجب توحیدِ باری تعالیٰ کا اقرار ہے ۔ ‘‘نیز قرآن نے بتایاکہ جملہ انبیاء اور مرسلین پر نازل ہونے والے احکام وشرائع میں پہلا حکم یہی رہا ہے ’’انہ لا الہ الا انا فاعبدون‘‘ کہ بندے میری الوہیت کو مانیں اور میری ہی عبادت کریں ۔
نبی کریم اپنے نائبین کو تاکید فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اولین دعوت اللہ تعالیٰ کی توحید کی دیں لہذا کسی بھی عمل یا عبادت سے قبل توحید باری تعالیٰ پر پختہ یقین وایمان شرط قراردیا گیا اسلئے کہ عبادت کی قبولیت ،اس میں لذت ،اس کی حلاوت عبادت کی بندے پر تاثیر ،عبادت کی غرض وغایت ،عبادت کی ادائیگی سے پہلے اخلاص نیت پر موقوف ہے ۔
بخاری شریف کی حدیثِ اول:
انما الاعمال بالنیات’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘کا یہی مدلول ہے۔
قلب کی صفائی ،قالب کی تیاری، باطن کی طہارت ،ظاہر کی اطاعت ،اندر کا خشوع وخضوع ،باہر کا اسلام وتسلیم ۔یہی حضرت انسان کی کامل اصلاح ہے مگر آغاز باطن سے ہوگا ،قلب سے ہوگا، اندر سے ہوگا اور اختتام ظاہر پر ہوگا۔اندر کے ماننے کو ایمان اور ظاہر کی اطاعت کو اسلام کہاجاتاہے ، دونوں کا بند ے کو مؤمن ومسلم بنانے میں فعال کردار ہے۔جب قلب سے بندہ مؤمن ہوجاتاہے تو اس کے قالب پر اسلام کا جامہ فٹ ہوجاتاہے ۔یاد رکھیں کہ حضرت انسان خلقت ربانی کا حسین شاہکار ہے ،ارشاد ربانی ہے:
’’ہم نے انسان کو خوبصورت خلقت کا مظہر بنایا ہے ۔ ‘‘
انسان ہی کے گرد پورا نظامِ ہستی گھومتاہے۔اسی کو خلافت ارضی کی خلعت پہنائی گئی ہے ،اسے ہی زمین کا وارث قراردیا گیا ہے جس سے یہ امر واضح ہوجاتاہے کہ انسان اس عالم کی جملہ مخلوقات کیلئے امام ہے ۔سبھی کچھ اسی کی خاطر بناہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ہو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ۔
’’ اللہ نے سبھی کچھ تمہارے لئے بنایا ہے۔‘‘
مگر حضرت انسان کو اسلئے بنایا کہ’’لیعبدون‘‘ کہ وہ الٰہ حق کی عبودیت کا طوق اپنے گلے میں پہن کر پوری کائنات کا سردار بن جائے اسی لئے تو حدیث شریف ہے کہ:
ایمان کی حلاوت صرف انہیں کو حاصل ہوتی ہے جنہیں اللہ اور رسول کی محبت ان کے ماسوا سے بڑھ کر ہو ۔‘‘
پھر جن کی کسی مخلوق سے محبت بھی محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہو ،جن کا کسی مخلوق سے بغض بھی صرف اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہو ۔بندے کا رب تعالیٰ سے یہی تعلق اسکی عبادت ہے اور رسول سے یہی تعلق ان کی اطاعت ہے ۔
اس تمہید سے ہماری غرض یہ ہے کہ بندہ کسی بھی عباد ت میں داخل ہونے سے پہلے اپنے معبود کی عظمت ،اس کے مقام ،اس کی ذات وصفات کا خوب استحضار کرلے پھر اس کی عبادت بھی ایسے کرے کہ:
’’تم اللہ کی عبادت اسی کی ذات کیلئے خالص کرتے ہوئے کرو۔‘‘
ایسا خالص کہ تم :حنفاء للہ غیر مشرکین بہ۔
’’یکسو ہوکر اللہ کے بندے بنو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ ‘‘
بندے کے اندر شرکِ جلی اور شرکِ خفی کا شائبہ تک نہ ۔جب ہم اپنی عبادت کا قبلہ ذات الٰہ برحق کو بنالیں گے تو عبادت کی لذت وحلاوت کو محسوس بھی کریں گے ۔ پھرہمیں صرف اسی میں راحت کا احساس ہوگا ۔اس یقین میں ضعف ہوگا تو عبادت میں بوجھ اورمشقت ہوگی ۔نماز کے بارے میں ارشاد ربانی ہے کہ:
وانہا لکبیرۃ الا علی الخاشعین ۔
’’نماز میں مشقت ہے مگر خشوع والے مشقت نہیں راحت سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
پھر وجہ بھی بتائی کہ انہیں اپنے رب سے ملاقات کا یقین ہے ۔یہی ایمانِ خالص ہے ۔
اہل علم نے حلاوتِ ایمانی کے بارے میں لکھا ہے کہ کبھی یہ لذت حسی بھی ہوتاہے جس کا لوگ مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں ۔مشرکین حضرت بلال کو اذیت ناک ضرب لگاتے تھے اور وہ بندۂ مؤمن وموحد بآواز بلند ’’احد احد‘‘ پکارتے تھے ۔اذیت ناک ضرب کا بھی مشاہدہ ہورہاہے اور حلاوت ایمانی کا بھی مشاہدہ ہورہا ہے ۔
حلاوتِ ایمانی کبھی لذتِ معنوی بھی ہوتی ہے کہ اس لذت کو بندۂ مؤمن ہی پاتے ہیں ۔حضرت بلال پر سکرات الموت کی شدت کا وقت ہے ،لوگ ’’واکرباہ ‘‘کہتے ہیں مگر اس عالم میں حضرت بلال ’’واطرباہ ‘‘فرمارہے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ :
’’کس خوشی کا موقع ہے ہم محمد اور ان کے ساتھیوں سے ملنے والے ہیں۔ ‘‘
الغرض باطن کی یہ ایمانی کیفیت وہ عظیم سرمایہ ہے جس کے بعد رحمن کی اطاعت کی مشقتیں راحت محسوس ہونے لگتی ہیں ۔یہی ایمانی حلاوت ہے اسی لئے اسلام اس پر زور دیتاہے ۔آنحضرت کی دعائے مبارکہ ہے کہ:
’’ اے اللہ! ہمیں ایسی یقینی کیفیت عطافرما کہ دنیاوی مشقتیں بالکل آسان ہوجائیں۔‘‘
اس تمہید سے ہماری غرض صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مؤمن بندے کسی بھی عبادت سے پہلے اپنے معبود برحق کی عظمت ،اس کی ذات وصفات میں توحید کا استحضار کریں نیز وہ دین کے بارے یہ استحضار کرلیں کہ وہ سراسر رحمت و نعمت اور عمل کے طورپر آسان ہے ۔ ہمارا دین جو مجموعۂ احکامِ شریعت ہے اس کے اس پہلو کا استحضار کریں ۔اس پہلو کا بیان واستحضار ہمارے نزدیک اہل علم ودعوت کا اہم فریضہ ہے مگر اس کے ذکر وبیان میں عموماً تساہل برتاجاتاہے ۔خاتم الشرائع اور ہمارے دین کا ’’نعمت ہونا‘‘ رحمت ہونا، آسان ہونا ہے ۔یہ امر در اصل ایمانیات کا جُزہے کیونکہ احکام شرعی کے بارے بطور مجموعی یہ عقیدہ رکھنا اور انہیں یہ ماننا کہ وہ ہماری فطرت کے عین موافق احکام ہیں ،وہ انسان ہی کے خالق کے وضع کردہ ہیں ۔ خالق نے ان میں تنگی ،حرج یا بندوں کیلئے بجائے مشقت کے ان کی سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھا ہے ۔ ان امور کے ایمانیات کے شعبہ سے تعلق کی وجہ سے ہی امام بخاری نے اپنی جامع صحیح کے کتاب الایمان میںایک باب’’الدین یسر‘‘ عنوان سے باندھا ہے کہ’’ دین آسان ہے ۔‘‘
نبی کریم کا ارشاد ہے:
’’ اور اللہ کے ہاں محبوب دین بھی ہر باطل سے حق کی طرف مائل ہونے والی ،سہولت والی ملت ہی ہے۔‘‘
نبی کریم کا ارشاد:
’’ دین آسان ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ دینِ اسلام کے جملہ احکام پر عمل اِنسان کیلئے آسان ہے،یہی باری تعالیٰ کا اعلان ہے:
’’ اللہ نے تمہارے لئے دین میں تنگی یا مشقت نہیں رکھی ۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے:
’’ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے ۔‘‘
مختلف انسانی تاریخ کے ادوار میں ربانی شریعت نازل ہوتی رہیں،وہ ان انسانوں کے حال کے موافق ہی رہیں ۔نبی کریم کے ارشاد گرامی ’’ان احب الدین الی اللہ الحنفیۃ السمحۃ ‘‘کا معنیٰ یہ ہے کہ جس دین کو میں لے کر آیاہوں اس میں 2وصف ہیں ۔ ایک اس کا حنفیت ہونا یعنی اس کا ہر موقف اور ہر شعبہ میں ہر باطل سے حق کی طرف مائل ہونا ۔دوسرا اس کا آسان ہونا ۔
’’حج‘‘ کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے ہم نے خصوصاً اسلامی شریعت کے اس پہلو کی طرف اسلئے اشارہ کیا ہے کہ آج کے حجاج کرام عموماً (الا ماشا ء اللہ) حج ہو یا عمومی عبادت...اِس اہم نکتے میں تامل نہیں فرماتے بلکہ مقام افسوس ہے کہ اہل علم ودعوت بھی ان احکام کو پیش کرتے ہوئے ان کے ’’یسر‘‘ کے پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہوتاہے کہ وہ جس قدر مشقت کو بیان کریں گے شاید انہیں راحت ملتی ہے حالانکہ عوام الناس کی فکری تربیت ان کی عملی تربیت سے مقدم ہوتی ہے ۔ان کی عبادات واحکام کے اس پہلو سے آگاہی سب سے مقدم ہونی چاہئے ۔دین اور احکام ربانی کے اس پہلو کے بیان سے بندہ میں ہمت وعزیمت پیداہوتی ہے ۔وہ جب اس امر کا استحضار رکھتاہے کہ ’’دین یسر ہے ،آسانی ہے ‘‘ تو وہ حکم کو بجالانے کیلئے ہمت باندھتا ہے اور اپنے نفس کو مقہور ومجبور بناتاہے ۔وہ اس کی مخالفت پر اپنی کمر کستاہے ۔ جب بندہ شریعت کو رحمت سمجھتاہے تو اس کے حکم کو بجالانے میں اسے روحانی ترقی محسوس ہوتی ہے ۔اسے راحت ملتی ہے لہذا حج میں رحمت کو بیان کرتے ہیں ۔
یادر ہے کہ حج مجموعۂ فضائل اور مجموعۂ رحمات ہے ۔ مالی وبدنی عبادت کا مجموعہ ہے ۔ یہ بندے کے رب تعالیٰ کے ساتھ عشق ومحبت کا اور اس کیلئے قربانی کا مظہر ہے ۔فرزندانِ توحید کے مابین اخوت ومساوات کا درس دینے کیلئے کامیاب مدرسہ ہے ۔ حج ابنائے ملت کو باہمی منافع اور مصالح سمجھانے ،ان میں الفت ومحبت پیداکرنے ،ان کے مابین حقد وحسد اور عداوتوں کے خاتمہ کا ذریعہ ہے ۔ حج اہل ایمان کی ظاہری اور باطنی تطہیر کا بہترین وسیلہ ہے ۔اُن میں ایمانی شعور ،فکرِ آخرت اور دوسروں کیلئے جینے کے شعور کو پیدا کرتاہے۔ حج میں رحمت کے مختلف پہلوؤں میں سے ہم اس مقالہ میں صرف اس کی فرضیت ،رحمت اورمقامِ فرضیت میں رحمات ِ رحمن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حدیث میں آتاہے کہ نبی کریم نے جب صحابہ کرام کو فرمایا:
’’اللہ نے تم پر اس گھر کا حج فرض کیا ہے سو تم اسکا حج کرو۔‘‘ تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم پر ہر سال حج فرض ہے ؟ جس پر آپ نے فرمایا کہ :
’’حج کی فرضیت تو ایک ہی بار ہے ۔اگر کسی نے ایک سے زائد مرتبہ کیا تو یہ اس کی طرف سے نفل ہوگا ۔ ‘‘
ایک اور روایت میں آتاہے کہ جب آپ نے صحابہ کرام کو حج کرنے کا حکم فرمایا تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کیا ہر سال ہم پر حج فرض ہے ؟ اس سوال پرآپ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا ۔ یہاں تک کہ ا ن صحابی نے 3 بار اپنا سوال دہرایا ، اس کے بعد آپ نے فرمایا:
’’ اگر میں تمہارے سوال کے جواب میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتاتو تم پر ہر سال حج فرض ہوجاتا اورتم اس کی استطاعت نہ رکھتے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ جناب نبی کریم کا سکوت اور کلام تو اللہ ہی کے حکم سے ہوتاہے تو حج کی فرضیت کا پوری عمر میں ایک بار ہونا شارع کی طرف سے اس کا فریضۂ عمر قرارپانا یہ رحمن کی اپنے بندوں پر رحمت کا عظیم مظہر ہے ۔رحمت للعالمین کی رحمت کی علامت ہے ، آپ کی لائی ہوئی شریعت پھر خصوصاً حج میں رحمت کی دلیل ہے ۔
فرضیتِ حج میں اس کا ایک بار ہونا ، ہر ایک پر فرض نہ ہونا ، پھر اسکی فرضیت کیلئے شرائط میں سے اس کی استطاعت ہونا ،راستے کا پُر امن ہونا ،بندۂ مؤمن کیلئے اپنے وطن سے مقامِ اداتک پھر وہاں سے اپنے گھر تک واپسی میں امن وامان اور ہر خطرہ سے سلامتی ہو وغیرہ وغیرہ ۔ہم بعض شرائط کے باعث رحمت ہونے پر شرائط حج کے بیان میںان شاء اللہ گفتگو کریں گے ۔
اب ہم مقام حج میں رحمان کی رحمات کے نظارے جو بندۂ مؤمن کرتاہے اُسے زمان ومقامِ حج میں رحمت کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں ۔
ربّ جلیل جو شارع حکیم ہیں، جو رحمن ورحیم ہیں اُس کی حکمت عظیم ہے کہ اس فریضہ حج کی ادائیگی کے زمان بھی مقرر ہیں،ارشاد ربانی ہے:
الحج اشہر معلومات۔
’’حج کے مقرر مہینے ہیں ۔‘‘
یہ مہینے حرمت والے مہینے ہیں جن میں بندہ کے عمل کی قدر وقیمت بڑھی ہوئی ہوتی ہے ۔گویا کہ اعمال صالحہ کیلئے وہ خصوصی موسم اور سیزن ہوتے ہیں اُن میں رحمن کی خصوصی عنایات بندوں پر نازل رہتی ہیں ۔وہ ایسے مہینے کہ ان میں تو زمانۂ جاہلیت میں بھی امن وامان رہتا تھا ۔بدامنی کے دور میں بھی لوگ امن سے سفر کرتے تھے۔
مزید پڑھیں:- - - -حج کے شعائر کی تعظیم بچوں میں کیسے پیدا کریں؟