Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حرم مکی شریف ، جہاں ثواب کئی گنا ، گناہ بھی عظیم

یہاں گناہ کا ارتکاب سنگین ہے، گناہ کرنے سے حرم کی تعظیم کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہے

حرم کی حرمت و عظمت اور شرف کے سبب جب یہاں نماز اور دیگر نیکیوں کا ثواب بے حد و حساب اور کئی گنا بڑھ کر ملتا ہے تو کیا یہاں گناہ اور برائی کے ارتکاب کا بھی یہی معاملہ ہے ؟ اس سلسلے میں یہ حقیقت ہے کہ حرم اور خارجِ حرم کے گناہ کی ایک حیثیت نہیں اور دونوں برابر ، ایک درجہ کے نہیں بلکہ خارج حرم کے مقابلے میں حرم شریف میں گناہ کا ارتکاب زیادہ سنگین اور شدیدوبال کا باعث ہے  کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس علاقہ کو حرمت بخشی ، اسے اپنا حرم بنایا ، اپنے محترم گھر کے لئے اس جگہ کو چن لیا اس لئے یہاں گناہ کا ارتکاب اور محترم علاقہ سے دور گناہ کا ارتکاب دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔دنیا میں بھی کسی بادشاہ کے محل اور اسکے قرب و جوار میں اس کی نافرمانی اس کی سلطنت کے دور دراز علاقے میں نافرمانی کے مقابلے میں سنگین سمجھی جاتی ہے ، یہی معاملہ بادشاہ کے قریب رہنے والے حواریوں کا بھی ہے کہ جو لوگ کسی بادشاہ کے قریب رہتے ہوں ، اسکے مزاج آشنا ہوں ، صبح و شام ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہوں ، ان کی معمولی غلطی بھی عام رعایا کے مقابلے میں سنگین اور قابل گرفت سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح کسی محترم زمانہ ، احوال اور محترم جگہوں میں بھی بظاہر معمولی غلطی ، معمولی نہیں بلکہ عظیم سمجھی جائے گی اور زیادہ قابل گرفت ہوگی ۔
     اس کی ایک نظیر اورمثال یہ بھی ہے کہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کی ازواجِ مطہرات( امہات المومنین رضی اﷲ عنہن اجمعین ) سے خطاب کرکے فرمایا :
    ’’ تم میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرے تو اسے دہرا عذاب دیا جائے گا ۔‘‘
    اسی طرح آگے یہ بھی فرمایا :
    ’’ تم میں سے جوکوئی نیک کام کرے تو اسے دوسروں کے مقابلے میں اجر بھی 2گنا ملے گا ، تمہارا معاملہ عام عورتوں کی طرح نہیں۔‘‘
    اسی طرح حدود حرم میں گناہ کا ارتکاب بھی صرف ایک گناہ نہیں بلکہ سنگین گناہ ہے نیز حرم کی تعظیم کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی بھی خلاف ورزی ہے اسلئے اس میں کوئی شک اور اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں کسی بھی گناہ کا وبال اورعذاب زیادہ شدید اور سخت ہے البتہ اہل علم سے اس بارے میں اختلاف منقول ہے کہ حرم میں گناہ اور برائی غیر حرم کے مقابلے میں کس درجہ بڑھ کر ہے ؟ اس سلسلے میں مشہور تابعی حضرت مجاہدؒ سے یہ منقول ہے :
     ’’ مکہ مکرمہ میں برائیاں اسی طرح بڑھتی ہیں جس طرح نیکیاں۔ ‘‘    اس کا بظاہر یہی مطلب ہے کہ جس طرح حرم کی نیکی ایک لاکھ کے برابر ہے ، اسی طرح حرم میں ایک برائی کا ارتکاب غیر حرم کے مقابلے میں ایک لاکھ برائیوں کی طرح ہے اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مکہ مکرمہ سے باہر قیام کی وجہ دریافت کی گئی تو آپؓ نے فرمایا:
     ’’ایسے شہر میں کیوںکر میں رہوں جس میں نیکیوں کی طرح برائیاں بھی بڑھتی ہیں ۔‘‘
    اس سے بھی بعض اہل علم نے یہ مراد لیا کہ حرم میں برائیاں مقدار اور عدد کے لحاظ سے بھی غیر حرم کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں ۔ اب کس مقدار اور تناسب سے بڑھتی ہیں ؟ اس سلسلے میں ایک رائے یہ ہے کہ ان میں اضافہ حرم کی نیکیوں کی طرح ہی ہوتا ہے یعنی ایک برائی ایک لاکھ برائیوں کے برابر اور دوسری رائے یہ ہے کہ حرم سے باہر جس طرح نیکیاں بڑھتی ہیں اسی تناسب سے یہاں برائیاں بڑھتی ہیں ، حرم سے باہر ایک برائی ایک ہی ہوتی ہے جبکہ ایک نیکی کم از کم 10 نیکیوں کے برابر ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جو کوئی نیکی لے کر آئے تو اسے اس کا10گنا اجر ملے گا اور جو کوئی برائی لے کر آئے تو اسے بدلہ نہیں دیا جاتا مگر اسی کے مثل ۔‘‘(الانعام160)۔
    برائی اور نیکی میں گویا دسویں حصہ کی نسبت ہے ، اسی تناسب سے گویا حرم کی برائیوں میں اضافہ ہوتا ہے ' حرم کی ایک نیکی ، ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے تو گویا وہاں ایک برائی اسی نسبت سے10 ہزار برائیوں کے برابر ہوگی ۔مقدار کی تحدید اور تعیین کے بغیر مطلقاً اضافہ کی صراحت امام احمد بن حنبلؒ سے بھی اس طرح منقول ہے کہ ان سے جب دریافت کیا گیا کہ کیا برائی ایک سے زیادہ لکھی جاتی ہے ؟ تو جواب میں ارشاد فرمایا:
     ’’ نہیں مگر مکہ میں اس شہر کی عظمت کے سبب۔ ‘‘
    اس کے برخلاف دوسری رائے بلکہ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ حرم کی برائیوں میں تعداد و کمیت کے لحاظ سے اضافہ نہیں ہوتا ہاں البتہ کیفیت کے لحاظ سے یہ غیر حرم کے مقابلے میں بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہیں،یہ اس لئے کہ قرآن و حدیث میں یہ عام ضابطہ بیان کیا گیاہے کہ اﷲ کے ہاں ایک برائی ایک ہی ہوتی ہے ، نیز برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ہوتا ہے نہ کہ زیادہ جبکہ نیکیوں میں اس کی جزا میں اﷲ کے فضل و کرم سے بے انتہا اضافہ ہوتا ہے جیسا کہ اوپر اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشادِ پاک گزرچکاہے کہ ’’ جو کوئی اس کے پاس ایک نیکی لے کر آئے تو اسے اس کا10 گنا اجر ملے گا اور جو ایک برائی لے کر آئے تو اسے سزا نہیں دی جائیگی مگر اسی کے مثل ۔‘‘ ( یعنی ایک برائی کے برابر ) ۔
    اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نبی سے روایت کرتے ہیں اور آپ   اﷲ عزوجل سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بے شک اﷲ نے نیکیوں اور برائیوں کو لکھ دیا ہے۔‘‘
    پھر اس کی وضاحت فرمادی کہ:
    ’’پس جو کوئی نیکی کا ارادہ کرے لیکن اسے انجام نہ دے تو اﷲ اسے اپنے پاس ( صرف ارادہ کی وجہ سے ) ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے ، اگر کوئی ارادہ کرے پھر اسے انجام بھی دے تو اﷲ اپنے پاس 10 سے700 گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ نیکیاں لکھ لیتا ہے اور جوکوئی برائی کا ارادہ کرے لیکن اس برائی کا ارتکاب نہ کرے تو اﷲ اپنے پاس اسے ایک کامل نیکی لکھ لیتا ہے ، اگر کوئی برائی کا ارادہ کرے اور اس کا مرتکب بھی ہو تو اﷲ اپنے پاس صرف ایک برائی لکھتا ہے ۔‘‘

مزید پڑھیں:- - - -حج کے شعائر کی تعظیم بچوں میں کیسے پیدا کریں؟

شیئر: