Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کا اتحاد پارہ پارہ

کراچی (صلاح الدین حید ر)قدرت کے کھیل بھی عجیب ہےں، وہ کہتے ہیں نا کہ” مدعی لاکھ براچاہے تو کیا ہوتا ہے وہی ہوتاہے جو منظور خدا ہوتاہے“ یہ محاورہ یہاں پوری طرح صادق آتاہے۔اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت سے ہمکنار کردے۔ مسلم لیگ کا آج کل برا حال ہے۔ وہ خود ہی اپنے انجام کو پہنچی ۔ 30سال سے پنجاب اور وفاق میں اقتدار میں رہنے کے باوجود اس نے کبھی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا۔کبھی نہیں سوچا کہ یوم حساب بھی کوئی چیز ہے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ڈھیل دیتی رہتی ہے۔ جب پکڑ ہوتی ہے تو اللہ کی پناہ، ہم سب کو اس کی خدائی سے ڈرتے رہنا چاہےے ۔ اقتدار یا حکومت آنے جانے والی چیز ہے۔اصل بات خوف خدا ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ ذمہ داریاں اپنے ساتھ خو ف خدا کی بھی بات کرتی ہے۔نواز شریف 3 مرتبہ وزیر اعظم کے منصب اعلیٰ پر براجمان کئے گئے۔قدرت کا شکر ادا کرنے کی بجائے انہوں نے قوم کی دولت کو لوٹنا شروع کردیا۔ پنجاب میں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پچھلے 10 سال سے بلا شرکت غیرے بلکہ مالک کل تھے۔ بجائے عاجزی و انکساری کے دونوں نے مختلف انداز اپنایا۔ آخرکب تک ، فارسی میں کہتے ہیں ”ہر فرعون ِرا موسیٰ“ ، انہیں نجانے کن کن خطابات اور القابات سے نوازا گیا۔ تخت لاہور کے نام سے پکار ا گیا۔ کبھی شخصی حکمرانی کا طعنہ دیا گیا ۔عمران کی صورت میں آخر ایک شخص نمودار ہوا جس نے ان کے تخت ِ کو للکارا ۔مظاہرے کئے، جا بجا ،گاوں گاوں، شہر شہر ، قریہ قریہ، جلسے جلوس کئے۔ آواز دی سدھر جاﺅ۔تکبر بّری چیز ہے۔اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔”آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو“۔نواز شریف اور بیٹی مریم تو دیر سے ہی لےکن انجام کو پہنچے جسے صرف عبرتناک ہی کہا جاسکتاہے۔ انتخابات میں عمران اور ان کی جماعت تحریک انصاف سرخرو ہوئی۔ (ن) لیگ بربادی کے کنارے پہنچ گئی۔ کاش اب بھی شہباز اور نواز کو سبق مل جائے، کچھ حالات سے سیکھ لیتے۔ اپنے عمل سے توبہ کرتے، شاید معافی مل جاتی، لیکن ایک طرف تو نواز شریف جیل کی کال کوٹھری میں ہوتے ہوئے بھی اکڑ فوں سے باز نہیں آتے، تو دوسری طرف چھوٹے میاں نوزائیدہ قومی اسمبلی میں جس میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، وہی طمطراق ، وہی غیض و غضب ۔بھول گئے کہ عرش معلی پر ایک ذات شریف ایسی بھی ہے جو سب کچھ دیکھتی رہتی ہے اور آپ کے عمل کی اکثرو بیشتر دنیا میں ہی سزا دیتی ہے۔کم مائیگی کا اظہار تو درکنار، شہباز شریف نے قومی اسمبلی دوسری مرتبہ پہنچنے کے بعد بھی جارحانہ انداز خطابت نہیں بھولے۔جہاں نوجوان بلاول بھٹو نے اپنی بے انتہا متاثر کن طریقے سے پورے ہال سے ہی نہیں۔بیرونی دنیا اور خود عمران سے بھی داد تحسین وصول کی۔ انہیں سلیکٹ پرائم منسٹر کہنے پر عمران اپنی نشست پر مسکراتے دکھائی دئیے ۔چند سیکنڈ کے بعد ڈیسک کو تھپک کر بلاول کی تعریف کی،تقریر میں طنز ضرور تھا، لیکن انداز بیان شریفانہ اور تمیز و تہذیب سے مرصع،شہباز شریف بھی ایسا کرسکتے تھے۔ اگر ن لیگ کے لیڈر ، سابق ریلوے منسٹر دوبارہ گنتی میں ہارنے کے باوجود شرمندگی کے احساس سے عاری ہیں تو شہباز شریف نے اسمبلی ہال میں جو تقریر کی، جو جارحانہ رویہ اپنایا وہ بہت سے لوگوںکے لئے سبق تھا کہ تکبر اور غرور سخت ناپسندیدہ شئے ہے۔ اجتناب کرنا چاہیے۔ شہباز شریف غصے سے لال پیلے ہو کر تمام تر غصہ عمران پر اتاررہے تھے، جیسے ساری خطائیں الیکشن کمیشن کی بجائے ان کی تھی۔ انہوںنے ہی الیکشن کو متنازعہ بنایا۔ کہتے ہیں کہ ”پہلے تولو پھر بولو“۔ شہباز کو اقتدار سے ہٹائے جانے کا غم تھا، قانون فطرت کو یکسر بھول گئے۔ کاش (ن) لیگ کو اب بھی ہوش آجاتا، قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخابات میں تو خیر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ ، اسد قیصر،کے مدمقابل تھے ۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن انتشار کا شکار تھی۔پی ٹی آئی کے اسد قیصر با آسانی اسپیکر کا انتخاب جیت گئے۔ جب وزیر اعظم کا انتخاب ہوا تو شہباز کو خود ہی اپنے آپ کو علیحدہ کرلینا چاہےے تھا، انہیں پتہ تھا کہ ہار اور ذلت ان کا مقدر ہے۔پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔جماعت اسلامی نے بھی شہباز شریف کو ووٹ نہیں دئےے تو پھر ناشکری کا مزہ تو چکھنا ہی تھا، کہاں عمران کے 176ووٹرز،کہاں شہباز شریف کے 90، آپ اسے لینڈ سلائڈ نہ کہیں ،لیکن ہار بہت بڑی تھی۔ ذراسی عقل رکھنے والے کو بھی ان تمام نتائج کے بعد ہوش آجانا چاہےے تھا کہ وہ حلیفوں سے دوستی کا نیا عزم لیے سب کو ساتھ لے کر چلتے،لیکن تعجب تو اس وقت ہوا جب نون لیگ نے ایوان بالا جسے عام طور پر سینیٹ کہتے ہیں میں پیپلزپارٹی کے قائد حزب اختلاف شیری رحمان کو ہٹا کر، جنرل ضیاءالحق کے اوپننگ بیٹسمین ،اپنا نمائندہ، را جہ ظفر الحق کو اپوزیشن لیڈر نامزد کردیا۔ شیری رحمان ایک شاندار ماضی رکھتی ہیں، بہت بڑے باپ کی بیٹی ہیں۔ان کے والد محترم حسن علی ابڑو رحمان آفندی سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہونے کے علاوہ سندھ مدرستہ السلام اسکول جس میں قائد اعظم جیسی شخصیت نے تعلیم حاصل کی۔سندھ مسلم کالج بورڈ کے چےئر مین بھی تھے ایک مشہور و معروف ہستی تھے، پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر اطلاعات رہیں، پھر امریکا میں پاکستان کی سفیر، اور اب سینیٹ میں حزب اختلاف کی لیڈر،انہیں ہٹا کر، راجہ ظفر الحق جن کی عمر اب ساٹھ ہے کیا ان کا بہت دیر تک ساتھ دے سکیں، گو کہ ہم ان کی لمبی عمر اور صحت کاملہ کے لیے صدق دل سے دعا گو ہیں۔ شہباز کا یہ فیصلہ قطعاً ٹھیک نہیں لگتا۔ یہ صرف اس بات پر غصے کی ترجمانی کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے انہیں وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران کے خلاف ووٹ کیوں نہیں دیا۔ ایسا فیصلہ صرف جذباتی اور حسد کے نام سے ہی پکارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹ میں اکثریت ہے۔ اگر الگ الگ بیٹھی رہی تو راجہ ظفر الحق کیا کرسکیں گے۔ لیگ کو سوائے پچھتاوے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ بہترہے اس فیصلے پر اس سے پہلے کہ نقصان ہو۔نظر ثانی کرلی جائے توہی بہتر ہوگا۔(ن )لیگ اس وقت جذبات کی رو میں بہہ رہی ہے۔ یہ اس کے حق میں نہیں، سیاست شطرنج کے کھیل سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ یہاں ہر چال سوچ سمجھ کر چلنی پڑتی ہے، تاکہ بازی آپ کے ہاتھ میں رہے۔ 

شیئر: