Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایس ایل کے 3ایڈیشن نجم سیٹھی کا کریڈٹ ہے

 
  نجم سیٹھی کے دور میں بعض کھلاڑیوں کے استحصال کی شکایتیں بھی آتی رہیں لیکن مجموعی طور پر ان کا دور کئی حوالوں سے بہتر قرار دیا جا سکتا ہے 
 محمد راحیل وارثی۔کراچی
عمران خان کے وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کا جانا طے تھا۔ اس دوران اُن کے استعفے کے حوالے سے چہ میگوئیاں بھی ہورہی تھیں۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ جلد ہی اُنہیں اس عہدے سے فارغ کردیا جائے گا۔ بالآخر عمران خان کے حلف اُٹھانے کے دو روز بعد ہی وہ چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اگر وہ خود سے نہ جاتے تو یقیناچند ہی روز میں اُن کی سبکدوشی کے احکامات آجاتے۔ استعفیٰ پوسٹ کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے لکھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے چیئرمین نامزد کیا تھا اور گورننگ بورڈ کے اراکین نے متفقہ طور پر چیئرمین منتخب کیا۔ استعفیٰ دینے کے لیے وزیراعظم کی حلف برداری کا انتظار کررہا تھا۔ نجم سیٹھی نے پاکستان کرکٹ ٹیم اور بورڈ کے مستقبل کے لئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا اور چند تجاویزبھی دیں۔سیٹھی کے استعفے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے احسان مانی کو پی سی بی کا نیا چیئرمین نامزد کیا۔ وہ آئی سی سی میں کلیدی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، وہ 3 سال تک اس کے خزانچی جبکہ 3 برس صدر رہے۔ یہ عہدہ اُنہیں اُن کی قابلیت کے مطابق نہیں ملا تھا، کرکٹ میں اُن کی خدمات تھیں اور نہ تجربہ پی سی بی چیئرمین شپ اُن کے مقابلے میں کئی مضبوط اُمیدواروں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اُنہیں دی گئی تھی۔ذکا ءاشرف اور اُن کے درمیان ابتداءمیں اس حوالے سے کھینچا تانی بھی ہوتی رہی، بالآخر نجم سیٹھی ہی کرکٹ بورڈ کے مستقل چیئرمین کے طور پر سامنے آئے۔ گزرے دور حکومت میں اپنوں کو نوازنے کے جو سلسلے شروع کئے گئے تھے۔ اس روش سے ملک سمیت کئی سرکاری اداروں اور محکموں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ چند ایک میں بہتری کی رمق بھی دکھائی دی، پی سی بی بھی اُنہی میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔ نجم سیٹھی نے جب پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالی تو صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ پاکستان ٹیم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی تھی اور اُسے پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ ہر غیر ملکی دورہ اُس کی ہار سے شروع ہوتا اور اُس کا اختتام بھی شکست کے گہرے سائے میں ہوتا۔ملکی میدانوں میں سناٹوں کا راج تھا، کوئی غیر ملکی ٹیم تو کجا کھلاڑی بھی یہاں آنے پر رضامندا نہ تھے۔ اس تمام تر صورت حال اور سب سے بڑھ کر قومی ٹیم کی ناقص ترین کارکردگی سے شائقین میں خاصی مایوسی اور بددلی پائی جاتی تھی۔ نجم سیٹھی کرکٹ کا تجربہ تو نہیں رکھتے تھے لیکن قومی ٹیم کیلئے اُن کے بعض فیصلے نہایت کارگر ثابت ہوئے۔ سابق چیئرمین کے دور میں کرکٹ میں کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن کا کریڈٹ نجم سیٹھی کو نہ دینا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ پی ایس ایل کو متعارف کرانا، اس کے 3 ایڈیشنز کا کامیابی سے انعقاد، دوسرے ایڈیشن کا فائنل اور تیسرے ایڈیشن کے سیمی فائنلز اور فائنل پاکستانی میدانوں میں کرانا اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان آنے پر رضامند کرنا اُن کا وہ عظیم کارنامہ ہے، جو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اُن کے دور کی بڑی کامیابیوں میں عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں اوّل نمبر، قومی کرکٹ ٹیم کا چیمپئنز ٹرافی جیتنا، ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن اور ویسٹ انڈیز کا دورہ  پاکستان شامل ہےں۔ ملکی میدانوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کےلئے بھی اُنہوں نے خوب جتن کئے، اس لحاظ سے اُن کی کوششیں قابل تعریف قرار دی جاسکتی ہیں، اسی کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کی ٹیمیں پاکستان آئیں ۔ بگ تھری کو تسلیم کرنا ان کی بڑی غلطی تھی، جس کا خاطرخواہ فائدہ پاکستان کو نہیں پہنچ سکا اور اس معاملے میں پستی ہی ہمارا مقدر بنی۔ ہندوستانی بورڈ کے مقابلے میں آئی سی سی میں پی سی بی اپنا کیس مضبوط طور پر نہ لڑسکا۔ پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن میں فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا، اُن کے دور میں بعض کھلاڑیوں کے استحصال کی شکایتیں بھی آتی رہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر اُن کا دور کئی حوالوں سے بہتر قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
 

شیئر: