لیرا اور ترک معیشت طوفان کے بھنور میں
سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین
کرنسی کی قدر میں کمی پر کسی بھی معاشی نظام کو تشویش لاحق ہوتی ہے۔ کئی ممالک اس المیے کا سامنا کرچکے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ متاثرہ ممالک کرنسی کے بحران سے ٹھیک ٹھاک طریقے سے نکل سکے ہوں تاہم ایک بات بیحد اہمیت رکھتی ہے اور وہ یہ کہ کرنسی کی قدر میں غیر معمولی انحطاط اور کرنسی کے لین دین کی قیمت میں زبردست کمی کے درمیان بہت دقیق فرق ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ان دونوں کے درمیان فرق سمجھ پاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ نہیں پتہ چل پاتا کہ معاشی نظام ان دونوںمیں سے کس صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک اور بات ہے اور وہ یہ کہ کرنسی کے لین دین کی قیمت میں گراوٹ کرنسی کی قدر کے سقوط کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ بعض اوقات متاثرہ ممالک کرنسی کی قدر میں گراوٹ کے مسئلے کاتدارک کرلیتے ہیں بشرطیکہ وہ کرنسی کے لین دین کی قیمت کا مسئلہ حل کرلیں۔ بعض حکومتیں اقوام عالم کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ مسئلہ کرنسی کے لین دین کی قیمت تک محدود ہے۔ وہ اس سلسلے میں نظام معیشت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے سے آنکھیں موند لیتی ہیں۔ اس کا نتیجہ کرنسی کی قدر میں مزید گراوٹ اور تباہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اقتصادی مسئلے کی خطرناک علامتیں سونے اور غیر ملکی کرنسی کے محفوظ ذخائر کے خطرناک شکل میں ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں توازن تجارت اور توازن ادائیگی میں بھی گڑبڑ پیدا ہوتی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ملک کی معیشت سرمایہ کارانہ منافع اور حقیقی شرح نمو کے حصول سے قاصر ہوچکی ہے۔
پوری دنیا کو ترک حکام کی جانب سے کرنسی کے بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تشویش ہے۔ بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ بینکاری پر اسکے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ انقرہ کے حکام ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے امریکہ کیساتھ سفارتی بحران کھڑا کررہے ہیں۔ رجب طیب اردگان نے قید و بند سے آزاد مزید شرح نمو کے چکر میں عالمی منڈیوں میں تشویش کی فضا برپا کردی ہے۔ اگر انقرہ کے حکام حقیقت حال سے یونہی آنکھیں موند ے رہے تو درپیش بحران ترک معیشت کو ملیامیٹ کردیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭