Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سستی دوائیں ، آدھا علاج

محمد بن جنید ۔ الجزیرہ
سعودی عرب میں امید افزا خبر یہ آئی ہے کہ مقامی بازاروں میں بعض دواﺅں کے نرخ کم کردیئے گئے۔ یہ خبر مسرت انگیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دواﺅں کی قیمتوں میں کمی کا اقدام دواسازکمپنیوں یا فارمیسیوں کے تاجروں کی جانب سے نہیں کیا گیا ۔ آرزو تو ہماری یہی تھی کہ دواﺅں کے نرخ دواساز کمپنیاں کم کریں یا یہ کارخیر فارمیسیوں کے مالکان انجام دیں۔ دواﺅں کے نرخوں میں کمی کا کارنامہ سعودی ایف ڈی اے نے انجام دیا ہے۔ اس ادارے نے دواﺅں کے نرخ متعین کرنے والے قواعد و ضوابط اور دواﺅں کے اندراج اور قیمتوں کو منظم کرنیوالے اصول و ضوابط نئے بنائے ہیں۔ یہ ضوابط سعودی وژن 2030سے ہم آہنگ ہیں۔ سعودی وژن کے تحت صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنانے اور مناسب نرخوں پر موثر دوائیں فراہم کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
اس سے کہانی کا دوسرا مثبت اور خوبصور ت پہلو یہ ہے کہ جس لمحے دواﺅں کے نرخوں میں تبدیلی کا اعلان کیا گیا ہے اسی لمحے سے سعودی بازاروں میں منصفانہ نرخوں پر دواﺅں کی فراہمی اور ان کی فروخت کو یقینی بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ فارمیسیوں کے حلقوں میں یہ اقدام ناپسندیدہ ہی شمار کیا جائیگا۔ سعودی ایف ڈی اے کے جاری کردہ پروگرام کے مطابق فارمیسیوں کو مقررہ دوائیں نئے سستے نرخوں پر فروخت کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ اس کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ ماضی میں جب تک دواﺅں کا پرانا اسٹاک ختم نہیں ہوتا تھا اس وقت تک وہ دوائیں بھاری قیمت پر ہی فروخت کی جاتی رہتی تھیں۔ پرانی دواﺅں کا ذخیرہ ختم ہونے پر ہی دوائیں نئے نرخوں پر فروخت کرنے کا رواج چھایا ہوا تھا۔ کھانے پینے کی اشیاءکے تاجر بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ سعودی ایف ڈی اے نے اس حوالے سے ایک اچھا کام یہ کیا کہ مریضوں کو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کا نگراں بھی بنا دیا ہے۔ مریضوں سے کہا گیا ہے کہ اگر کسی فارمیسی پر مقررہ دوائیں پرانے نرخوں پر فروخت کی جارہی ہوں اور نئی سستی قیمتوں پر فروخت کرنے سے اجتناب برتا جارہا ہو تو پہلی فرصت میں ایف ڈی کو اس سے مطلع کردیا جائے۔ دواﺅں کے نرخوں میں 30سے 40فیصد تک کمی کی گئی ہے۔ 
سچی بات یہ ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ عوام اقتصادی چیلنجوں کے طوفان میں گھرے ہوئے ہیں اور ایسے عالم میں جبکہ اشیاءکے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں ۔ بعض دواﺅں کے نرخوں میں کمی ایک طرح سے مریضوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ثابت ہوئی ہے۔ خاص طور پر ایسے لوگ جو دائمی نوعیت کے امراض میں مبتلا ہیں انہیں مطلوبہ دوائیں مسلسل اوربھاری مقدار میں خریدنی پڑرہی ہیں۔ دواﺅں کے نرخوں میں کمی کے فیصلے نے ایسے لوگوں کو بھی خوشیاں دی ہیں جو دائمی نوعیت کے امراض میں مبتلا نہیں ہیں تاہم وہ جب بھی دواﺅں کے نرخ سنتے تو تکلیف محسوس کرتے تھے ۔ پورے ملک میں دواﺅں کے نرخوں میں کمی کی اطلاع نے خوشگوار اثرات ڈالے ہیں ۔ خوشی اس وجہ سے بھی ہوئی کہ گزشتہ برسوں کے دوران عالمی منڈیوں میں دواﺅں کے نرخ کم ہورہے تھے اور سعودی عرب میں وہی دوائیں مہنگی فروخت ہورہی تھیں۔ بہت سارے لوگوں نے اس صورتحال سے عاجز آکر آن لائن دوائیں خریدنا شرو ع کردی تھیں ۔ یہ لوگ آن لائن خریداری اس کے باوجود کررہے تھے جبکہ انہیں پتہ ہے کہ بعض اوقات دوائیں آن لائن خریدنے سے وہ مشکلات میں بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔
عام طور پر ایک بات یہ مشہور کی جاتی ہے کہ اگر دواسازوں کو منافع زیادہ ملے گا تو ایسی صورت میں وہ زیادہ منافع والی رقم دواﺅں کو مزید موثر بنانے میں معاون ریسرچ پر خرچ کرسکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالآخرفائدہ مریض کا ہی ہوگا۔ میری سوچ اس مقولے کے بالکل برخلاف ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ اگر ہم مریضوں کو سستی دوائیں فراہم کرینگے تو اس سے ان کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے بلکہ ان کی آدھی بیماری تو دواﺅں کے سستے ہونے کی خبر سے ہی دور ہوجائیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: