Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری میڈیا کی آزادی

 حکومت سرکاری میڈیا ، پاکستان ٹیلی ویژن ،ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی پالیسی کو تبدیل کرکے اسے صحیح معنوں میں عوامی نمائندہ اردارہ بنانا چاہتی ہے
کراچی (صلاح الدین حیدر) پچھلے ہی ہفتے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت سرکاری میڈیا ، پاکستان ٹیلی ویژن ،ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کی پالیسی کو تبدیل کرکے اسے صحیح معنوں میں عوامی نمائندہ اردارہ بنانا چاہتی ہے ۔ تینوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں، پی پی پی، اور پی ایم ایل (این) کو نمائندگی دی جائے گی تاکہ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے اداروں کو کھل کر اظہار رائے کا موقع مل سکے ۔  فیصلہ تو بہت اچھا ہے، فوری طور پر اس کا خیر مقدم بھی ہوا، لیکن سوال اب بھی یہی ہے کہ ایساممکن ہوسکے گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ، ریڈیوپاکستان اور ایسویسی ایٹڈ پریس آف پاکستان شروع سے ہی وزارت اطلاعات کے کنٹرول میںرہی ہیں۔ حکومت کا ان پر مکمل کنڑول ہے کسی بھی سرکاری  پالیسی کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں،فقط مداح سرائی ،سب اچھا ہے کا راگ الاپنے میں ہی ان کی عمر بیت گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا مگر کیا یہ ہوپائے گا یا محض لفاظی ہی رہے گی ، پاکستان کا کلچر عجیب ہے، یہاں حکومتیں یا تو ملٹری کے کنڑول میں ہوتی ہیں۔جب عوام کے ووٹوں سے منتخب سیاستدان برسراقتدار ہوتے ہیں تو یہی نشریاتی ادارے ملک کو بہترین بنا کر پیش کرتے ہیں، جب حکومتیںہٹتی ہیں تو عوام یہ جان کر ہکا بکا رہ جاتے ہیں کہ بجائے صحیح ہونے کے ملک بے چارہ مسائلستان بنا ہوا ہے ۔ کابینہ نے اگر واقعی پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان اور آپ کو آزادی دینی ہی تھی تو بی بی سی یا  ہندوستانی ٹیلی ویژن دور درشن کا ہی مطالعہ کرلیتے۔بی بی سی تو خیر حکومتی ادارہ ہوتے ہوئے بھی مکمل طور پر آزاد ہے، لیکن دور درشن بھی بڑی حدتک حکومت وقت پر تنقیدی پروگرام ، مباحثے نشر کرتاہے۔ حالات حاضرہ کی صحیح تصویر پیش کرنے میں خود مختار ہوں۔اس کے لئے ضروری تھا کہ ان تمام اداروں کے بورڈ آف گورنر کو یکسر طور رپر تبدیل کردیا جائے، ممبران میں صرف دو اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندے ہی نہیں، بلکہ اساتذہ کرام، ماہرین معاشیات،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مالکان اور صحافی انجمنوں کے نمائنوں کو بھی نئی تشکیل شدہ بورڈ میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جاتی تاکہ پالیسی بناتے وقت یہ ادارے صحیح معنوںمیں قومی کہلائے جائیں ۔ ایوب خان سے لے کر ، بھٹو ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف، بے نظیر بھٹو،نوازشریف سب نے ہی ان اداروں کو ذاتی تشہیر کیلئے استعمال کیا۔  یہ تو شکر ہے کہ پرویز مشرف نے ایک ملٹری جنرل ہوتے ہوئے بھی پرائیوٹ ٹیلی ویژن اور ریڈیو اسٹیشن کی اجازت دی جس کی وجہ سے معاشرے میں ایک صحت مند مباحثے کا آغاز ہوا اور عوام کو منفی اور مثبت دونوں طرف کی تصویر بڑی حد تک دیکھنے کو ملی۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا واقعی تبدیلی کا سورج طلوع ہوگا۔ یا صرف ایک اپوزیشن کے نمائندوں کو پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے گورنرننگ بورڈ میں شامل کر کے منصوعی طور پر تبدیل کا اظہار کیا جائے گا۔ 
 

شیئر: