احمد بن عثمان التویجری ۔ الحیاة
حصہ دوم
یمن پر بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی مجموعی رپورٹ دیکھنے والے اہل نظر کو اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوگا کہ اس رپورٹ میں حوثی باغیوں کی کھلم کھلا جانبداری کی گئی ہے۔ غیر جانبدار قانونی کمیشن کی جانب سے الحدیدة کو حوثیوں سے پاک کرنے کےلئے یمنی فوج اور اسکی معاون اتحادی فوج کے آپریشن کو الحدیدہ پر جارحانہ حملہ قرار دینا نامعقول اور افسوسناک امر ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ ”اتحادی افواج اور انکے ہمنواﺅں نے جون 2018 ءمیں الحدیدہ پر حملہ کیا، البتہ اقوام متحدہ کی ثالثی پر حملے کوچند ہفتوں کیلئے معطل کردیا گیا“۔
سب لو گ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حوثی یمن کی آئینی حکومت کے باغی مسلح گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ الحدیدہ شہر، دارالحکومت صنعاءاوریمن کے دیگر علاقوں پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ مذکورہ علاقوں پر ان کا قبضہ یمن کی آئینی حکومت اور اسکی قومی خودمختاری کیخلاف کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔ آئینی حکومت نے اتحادی افواج کی مدد سے الحدیدة کے اطراف جو فوجی آپریشن کیا وہ قانونی عمل تھا۔ تمام بین الاقوامی قوانین اور دستاویزات اسے جائز قرار دیئے ہوئے ہیں۔ یہ قانون اور قومی بالادستی کی باغی جماعت کی جانب سے یرغمال بنائے شہر کی بازیابی کے لئے یمن کی آئینی حکومت کا جائز ریاستی حق تھا۔ اسے جارحانہ حملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سب لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ اتحادی افواج نے یمن میں مداخلت اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ یمن کی آئینی حکومت کی باقاعدہ درخواست پر کارروائی کی۔
بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں اتحادی افواج کے حملوں اور شہریوں کے حلقوں میں ان سے ہونے والے نقصانات پر بڑا زوردیاگیا ہے۔ اسکی تفصیلات کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ رپورٹ پڑھنے سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اس میں مذکور بیشتر معلومات حوثیوں کی فراہم کردہ ہیں۔ تحقیقاتی کمیشن کے ماہرین نے حقیقت حال دریافت کرنے کی کوئی زحمت نہیں کی۔ بہت ساری رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ حوثی مقامی شہریوں کو اغوا کرکے جیلوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں او ربہت سارے قیدیوں کو فوجی ٹھکانوں پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیاتھا کہ حوثی یمنی بچوں ، عورتوں اور خاندانوں کو عسکری ٹھکانوں اور گولہ بارود کے گوداموں کے قریب یا اندر ٹھہرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے۔ یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک ہے۔ تحقیقاتی کمیشن کے ماہرین کا فرض تھا کہ وہ ان رپورٹوں کی چھان بین کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ اس قسم کی سرگرمیاں بدترین جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے بنیادی نظام کی دفعہ 8کی شق 23بی اور دفعہ 7کی شق ڈی میں یہ بات واضح الفاظ میں موجود ہے۔
بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی شق 41میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ”ماہرین نے وہ رپورٹیں جمع کیں جن میں بتایا گیا ہے کہ حوثیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں اور پہاڑیوں سے گولہ باری کی تھی جس سے زیادہ تر شہری زخمی ہوئے“۔ رپورٹ کی شق 43میں تحریر ہے کہ ”بہت سارے عینی شا ہدین کا کہناہے کہ سوفیٹیل ٹیلے، فضائی دفاع والے ٹیلے اور مرکزی دفاع والے ٹیلے سے باقاعدہ ہلکے پھلکے ہتھیاروں اور توپخانے سے گولہ باری کی گئی۔ علاوہ ازیں الخولہ، الحریر، الحوض ، الصالحین اور القحوص پہاڑوں سے حملے کئے گئے۔ یہ سب حوثیوں اور علی صالح کے عسکریت پسندو ںکے زیر قبضہ علاقے ہیں“۔ انتہائی حیرت ناک اور اندوہناک پہلو یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے ماہرین نے اس پر صرف اتنا تبصرہ کرنے کی زحمت گوارہ کی ” تعز میں ہلاک کرنے والوں کی نشاندہی کےلئے مزید تحقیقات درکار ہے“۔ تحقیقاتی کمیشن نے یہ تبصرہ جس انداز سے کیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اس کے ماہرین کو فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کے اس قانون کا علم ہی نہیں جس کی دفعہ 8کی شق ایچ میں بلا کم و کاست یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ” جنگی جرائم میں براہ راست حصہ نہ لینے والے افراد یا عام شہریوں پر جان بوجھ کر حملہ بین الاقوامی قانون کی نظر میں جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے زمرے میںآتا ہے اور انہیں انتہائی خطرناک جرائم تسلیم کیا جاتا ہے۔
(کالم نگارماہر آئین و انسانی حقوق و سربراہ تنظیم عالمی عدالت ہیں)
********