ٹرمپ وہائٹ ہاﺅس میں رہیں گے
عبدالمنعم سعید۔ الشرق الاوسط
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب امریکی صدر ٹرمپ کی بابت سوالات کی بوچھار نہیں ہوتی ہو۔ سوالات کا محور یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کا مستقبل کیا ہے؟ پوری دنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟کیا ٹرمپ ایران پر حملہ کرینگے؟ ٹرمپ کے نجی وکیل مائیکل کوہن اور ان کی انتخابی مہم کے قافلہ سالار پول مین فورٹ کے خلاف فرد جرم جاری ہونے کے بعد کیا تبدیلیاں ہوسکتی ہیں؟یہ 2016ءکے دوران امریکی انتخابات میں روس کے کردار سے متعلق رونما ہونیوالے واقعات کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ آیا اس کا ٹرمپ کے انجام سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ وجہ یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ قانون کے دائرے میں ہورہا ہے ۔ قانون کی اپنی پابندیاں بھی ہیں اور قانونی کارروائی کیلئے وقت کی حد بندیاں بھی ہیں۔ ٹرمپ کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی جو سیاسی ،آئینی اور قانونی شرائط ہیں وہ بلا شبہ پوری نہیں ہور ہیں۔ امریکی صدر کو کانگریس کے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت کے بغیر اور طویل قانونی تحقیقات سے قبل برطرف نہیں کیا جاسکتا ۔ قانون کا مطلب یہ ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں ٹرمپ کو اپنا مقصد حاصل کرنے تک عدالت کی راہداریوں میں گھسیٹتی رہیں۔
سیاسی تجزیہ نگار ٹرمپ کی شخصیت سے متعلق ہر معاملے میں مختلف ہیں تاہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ ٹرمپ کب کیا کرینگے یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ جس طرح وہائٹ ہاﺅس پہنچے ہیں وہ روایتی طریقہ نہیں تھا۔ کانگریس سے لیکر حکومت تک اور سرکاری اداروں سے لیکر خفیہ اداروں کے مرکز تک ٹرمپ کے تعلقات تشویشناک ہی رہے ہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ کی بابت جو حقائق مسلم ہیں وہ یہ ہیں:
1۔ ٹرمپ کے ووٹرز ابتک ان کے وفادار ہیں۔انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کا شہ سوار ایوان صدارت کی کرسی پر کس طرح براجمان ہوا۔ ان کی دلچسپی کا محور صرف یہ ہے کہ ٹرمپ کے یہاں ”امریکہ پہلے“تھا اور ہے۔ان کی دلچسپی اس امر میں ہے کہ ٹرمپ کے دور میں امریکی معیشت بہتر ہورہی ہے اور انہوں نے امریکہ کو کسی جنگ میں نہیں جھونکا۔
2۔ ٹرمپ نے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا اور کررہے ہیں۔ وہ اندرون اور بیرون ملک امریکہ کے لبرل ازم کا دائرہ محدود کرنے اور پریشر بنانے میں کامیاب ہیں۔
3۔ جو کچھ مشہور ہے، اس کے برعکس ٹرمپ جو کچھ کررہے ہیں اس کی اپنی ایک معقولیت ہے۔ غالباً یہ ان کے بزنس مین ہونے کی دین ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے یہ معقولیت امریکی قومیت کے نظریے سے اخذ کی ہو جس کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ سفید فام امریکیوں کی قومیت ہے۔ اس رجحان کے مالک امریکی چاہتے ہیں کہ ان کا ملک دنیا اور اس کے شرانگیزیوں سے دور رہے۔
مذکورہ تینوں حقائق پر غور و خوض کرنے والا انسان اسٹراٹیجک سوچ کا انداز دریافت کرسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹراٹیجک سوچ کا یہ طرز مبصرین ،امریکی اور مغربی تجزیہ نگاروں کیلئے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے تاہم اگر لبرل ازم کی جانبداری سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ معقول نظر آتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ گزشتہ 2عشروں اور کلنٹن سے لیکر اوبامہ تک امریکہ پر لبرل ازم کا راج رہا۔ اگر اس زاویہ¿ نظر سے ٹرمپ کے تصرفات اور ان کے بیانات کو دیکھا جائیگا تو سب کچھ قابل فہم لگے گا اور کسی طرح کی کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ٹرمپ ہر صبح ٹویٹ کرکے امریکی لبرل ازم کے مشرقی ادارے کو سبوتاژ کرتے ہیں۔ امریکی معیشت کو ٹیکسوں اور مختلف اقدامات کی پابندیوں سے آزاد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ٹرمپ نے خارجہ پالیسی میں بھی اپنا ایک انداز اختیار کیاہے۔ انہوں نے شمالی کوریا کو آتش و آہن کی جنگ کی دھمکی دی ،پھر اسے ایٹمی اسلحہ سے پاک کرنے کیلئے معاہدے کی داغ بیل ڈالی۔ جنوبی کوریا میں امریکی فوج میں کمی لانے کا فیصلہ کیا۔شام میں معاملات کو حد سے زیادہ گرمانے سے دامن بچایا، ایران سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی پیچیدہ ہے۔ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے ۔ انہوں نے ایران کے خلاف انتہا درجے کی طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے ایران کے سیاسی نظام کو ایرانی اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کے ذریعے جڑ سمیت اکھاڑپھینکنے کا انتباہ دیاہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ اس پر عمل کریں لیکن ٹرمپ جنگ تک جانے کی کوئی رغبت نہیں رکھتے۔کم سے کم خسارے کے ساتھ بڑے سے بڑا سودا کرنے کا چکر چلاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کم از کم اپنی پہلی مدتِ صدارت مکمل کریں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس دوران ایسے حالات پیدا کردیں کہ دوسری بار بھی صدر منتخب ہوکر وہائٹ ہاﺅس میں براجمان رہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭