یمن پر عالمی تحقیقاتی رپورٹ، انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے
احمد بن عثمان التویجری ۔ ۔ الحیاة
(ماہر آئین و انسانی حقوق و سربراہ تنظیم عالمی عدالت)
قسط اول
اقوام متحدہ کے ماتحت انسانی حقوق کونسل نے یمن میں انسانی حقوق کے حالات پر بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن نے پریس کانفرنس کے دوران یکم ستمبر 2014ءسے لیکر 30جون 2018ءتک کے حالات پر مشتمل تحقیقات کے نتائج بیان کئے۔ میں نے پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی معلومات کا بغور جائزہ لیا۔ اسکے بعدبین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کا عربی متن بھی دیکھا۔ میں یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ تحریر کررہا ہوں کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی پریس کانفرنس ہو یا رپورٹ دونوں میں سے کوئی بھی مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اتری۔ دونوں سے جو توقعات تھیں وہ کسی طرح بھی پوری نہیںہوئیں۔
سب سے پہلی بات جو میں اپنے قارئین کے سامنے لانا چاہوں گا، وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے یمن کے تمام متحارب فریقوں کو صرف 2گروپوں میں محدود کرکے رکھ دیا۔ کمیشن نے ایک گروپ کو ”حکومت نواز افواج “ اور دوسرے گروپ کو ”عملی حکام “ کا نام دیا۔ یمن کے حالات سے واقف کار لوگ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کی مذکورہ تقسیم انتہائی سطحی نوعیت کی ہے۔ یہ ظالمانہ تقسیم ہے۔ بین الاقوامی قانونی کمیشن کو اس قسم کی بھیانک غلطی زیب نہیں دیتی۔ کمیشن نے ایک طرف تو یمن میں سرگرم موثر فریقو ںکو یکسر نظر انداز کردیا۔القاعدہ، اسلامی ریاست تنظیم (الدولہ الاسلامیہ) دیگرگروپ خصوصاً الحدیدة شہر کی تنظیمیں ، دونوں فریقو ںمیں سے کسی بھی فریق سے غیر منسوب قبائلی جماعتیں اور تنظیمیں شامل کی جانی تھیں شامل نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب تحقیقاتی کمیشن نے ”حکومت نواز“ تمام گروپوں کو ان میں سے کسی ایک گروپ یا کسی ایک فرد سے غلطی سرزد ہونے پر پورے گروپ کو مورد الزام ٹھہر ا کر انصاف کے بنیادی تقاضے پورے نہیں کئے۔ تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں ایران کا دور پرے تک سے کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تھا حالانکہ دور اور قریب کے سب لوگ جانتے ہیں کہ حوثیوں کا سب سے بڑا حمایتی فریق ایران ہے اوروہی ان پر اپنے فیصلے تھوپتا ہے بلکہ یمن میں حوثی جو جرائم، قوانین کی خلاف ورزیاں اور بین الاقوامی معاہدوں کی پامالیاں کررہے ہیں اُن سب کا ذمہ دار ایران ہی ہے۔ علاوہ ازیں تحقیقاتی کمیشن نے یمنی تنازع کے دونوںفریقوں میں سے کسی ایک کو بھی اس کا صحیح نام نہیں دیا۔ دونوں میں سے کسی ایک کوبھی حقیقت کے ترجمان وصف سے یاد نہیں کیا۔اصولی بات یہ تھی کہ یمن کی حکومت کا تذکرہ منتخب آئینی حکومت کی حیثیت سے کرایا جانا تھا جبکہ عملی حکام کا ذکر صنعاءاور یمن کے مختلف علاقوں پر طاقت اور دہشتگردی کے بل پر قابض مسلح حوثی باغی گروہ کے نام سے کیا جانا تھا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی ماہرین قوانین پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تحقیقا ت کے دوران جرم کے انتہائی اہم ستون ”جرم کے قصد‘ ‘ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ رپورٹ میں عرب اتحاد برائے یمن کے بعض اہلکاروں کی بلاقصد غلطیوں اور حوثیوں کے بالقصد پے درپے جرائم کے درمیان کوئی فر ق نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر مکہ مکرمہ، ریاض، جیزان اور نجران جیسے گھنی آبادی والے سعودی شہروں پر حوثیوں کے بیلسٹک میزائل حملوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا اور زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب کے گھنی آبادی والے شہروںپر حوثیوں کے دسیو ں بلکہ کئی سو میزائل حملوں کا تذکرہ رپورٹ کی 22ویں شق میں سرسری طور پر کرکے چھوڑ دیا۔ یہ نہیں بتایا کہ یہ حملے انسانیت سوز جرائم اور گھناﺅنے ترین جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ جرائم کی یہ تقسیم بین الاقوامی فوجداری قانون عدالت کی دفعہ 8کی شق ایچ میں یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ ”جنگی سرگرمیوں میں براہ راست شرکت نہ کرنے والے افراد اور عام شہریوں کو جان بوجھ کر حملوں کا ہدف بنانا خطرناک ترین جنگی جرائم میں شامل ہے“۔
تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی شق 47میں تسلیم کیا گیا ہے کہ حوثیوں نے کمیشن کے ماہرین کو صنعاءمیں سیاسی سلامتی کے ادارے اور قومی سلامتی کے ادارے کی جیلوں کے معائنے کا موقع نہیں دیا۔ یہ جیلیں حوثیوں کی خطرناک ترین جیلیں ہیں۔ انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزیاں انہی جیلوں میں کی جارہی ہیں۔ رپورٹ کی مذکورہ شق میں تحریر کیا گیا ہے کہ ”صنعاءمیں سیاسی سلامتی کے ادارے اور قومی سلامتی کے ادارے کے معائنے کیلئے حکام پر ”حوثیوں “ نے یہ شرط عائد کی تھی کہ کمیشن اس بات کی ضمانتیں فراہم کرے کہ عرب اتحادی ان پر فضائی حملے نہیں کرینگے۔ اسی وجہ سے ماہرین کی ٹیم مذکورہ جیلوں کا دورہ نہیں کرسکیں۔ ضمانتیں مہیا نہیں تھیں“۔ تحقیقاتی کمیشن نے جو عذر بیان کیا ہے وہ نہایت بودہ ہے۔ کمیشن ماہرین کو جیلوں کا دورہ کرانے کیلئے حوثیوں پر دباﺅ ڈال سکتا تھا اور مطلوبہ ضمانتیں حاصل کرنے کیلئے یمن کی آئینی حکومت سے تال میل پیدا کرسکتا تھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کمیشن نے ا یسا کچھ نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭