Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیکھ بھال کر نوازئیے

***احمدآزاد۔ فیصل آباد***
وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کی ٹیم پاکستان کے عروج کے لیے کاوشوں میں مصروف عمل ہیں ۔اپنے خطاب میں نبی آخرالزماں کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان ایک سچے اور کھرے مسلمان نظر آتے ہیں ۔پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی ابترصورتحال ہے ۔حکومت ملتے وقت کا تجارتی خسارہ 37ارب ڈالر،18ارب کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ،2400 ارب کے قریب مالیاتی خسارہ اور سرکلر ڈیٹ کی 650ارب روپے سے پارکرتی ہوئی حد اور اوپر سے بجٹ اہداف کا بھاری بھرکم طوق بھی تحریک انصاف کے گلے میں ہے ۔ماہرین معاشیات کے مطابق 36ہزار ارب کی معیشت میں 24ہزار ارب روپے کا قرض کسی بھی سونامی سے کم نہیں ۔ماضی کی حکومتوں میںبھی اگرچہ معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اکنامک ایڈوائزری کونسل بنائی جاتی رہی ہیں لیکن ان کا حال صرف حاضری لگانے ، حکومتی معاشی فتوحات کے حوالے سے پریزنٹیشن دیکھنے اور کھانا کھانے سے آگے نہیں بڑھ پاتی تھی ۔وزیرخزانہ ان کے مشورے تو اک طرف سوالات تک سننا گوارہ نہیں کرتے تھے۔عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کمیٹی کی صدارت خود کیا کریں گے اور ارکان کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسیاںبنائیں گے جس پر باقاعدہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے عمل شروع ہوبھی چکا ہے کہ پہلے اجلاس میں عمران خان نے بنفس نفیس شرکت کی ۔
تحریک انصاف کی 2018ء کے الیکشن میں جیت کے بعد عمران خان کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد کیے گئے اقدامات نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ قابل تحسین بھی ہیں ۔انہی اقدامات میں سے اک معاشی مشاورتی کونسل کا بنایا جانا ہے جس میں 18ارکان شامل ہیں (اب یہ تعداد 17ہوچکی ہے کیونکہ عاطف میاں کو مشاورتی کونسل میں سے نکال دیا گیا ہے۔متبادل کا اعلان جلد ہی کردیا جائیگا) جس میںوزیر خزانہ، وزیر پلاننگ، پلاننگ کمیشن کے نائب چیئرمین، گورنر اسٹیٹ بینک، مشیر اداریاتی اصلاحات، مشیر تجارت ، سیکریٹری  فنانس ڈویژن اورڈاکٹر فرخ اقبال ڈین و ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن(IBA )،ڈاکٹر اشفاق حسن خان پرنسپل و ڈین  اسکول آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومنٹیز نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(NUST)،ڈاکٹر اعجاز نبی پروفیسرآف اکنامکس لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS)،ڈاکٹر عابد قیوم سلہری ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی(SDPI)،ڈاکٹر اسد زمان وائس چانسلر پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس،پروفیسر ڈاکٹر نوید حامد لاہورا سکول آف اکنامکس،سید سلیم رضاسابق گورنرا سٹیٹ بینک،ثاقب شیرانی ماہر اقتصادیات،ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ پروفیسر آف انٹرنیشنل فنانس اینڈ ڈیولپمنٹ ہارورڈ کینیڈی اسکول،ڈاکٹر عمران رسول پروفیسر آف اکنامکس یونیورسٹی کالج لندن شامل ہیںجبکہ ڈاکٹر عاطف آر میاں پروفیسر آف اکنامکس اینڈ پبلک افیئرز پرنسٹن یونیورسٹی بھی شامل تھے۔اس کونسل میں کچھ ارکان سرکاری ،کچھ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے اور چند ایک غیرملکی ماہرین شامل ہیں ۔ان 18ماہرین میں سے صرف ایک نام عاطف آر میاں پر پاکستانی عوام کی طرف سے شدید اعتراض کیا گیا ہے ۔
عاطف میاں کی زندگی کچھ یوں ہے کہ عاطف میاں کے والدین مسلمان ہیں ۔عاطف میاں نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی اور 1993ء میں امریکہ جاکر مزیدتعلیم حاصل کی ۔میسا چیوسیٹس یونیورسٹی سے ریاضی اور کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی اور پھر اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی۔عاطف میاں امریکہ کی ٹاپ یونیورسٹی پرنسٹن میں پبلک پالیسی اینڈ فنانس کے پروفیسر ہیں۔13ستمبر 2014ء کے دھرنے میں عمران خان کے منہ سے پہلی بار عاطف میاں کا نام سنا گیا اور جب اس پر یاردوستوں نے نظر ماری تو انکشاف ہوا کہ عاطف میاں کا تعلق قادیانی جماعت سے ہے جسے مملکت خداد اد کے آئین میں غیرمسلم کہا گیا ہے ۔قومی اسمبلی میں طویل مشاورت، مباحثے ، مکالمے، وضاحتوں ، سوالات ، جوابات اور تنقیح و تجزیے کے بعد1947ء میں متفقہ فیصلہ سنایا گیا کہ احمدیوں کے دونوں گروہ غیر مسلم ہیں۔ایک لمبی تاریخ ہے جس میں تمام مکاتب فکر کے چھوٹے سے چھوٹے کارکن اور بڑے سے بڑے عالم دین کا نام شامل ہے جنہوں نے جہد مسلسل اور عمل پیہم سے ختم نبوت پر پہرہ دیا ہے ۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیںکہ عاطف میاں نے خود اپنی آپ بیتی میںاس کا ذکر کیا اور احمد شیخ نامی قادیانی مبلغ سے ملاقات کا ذکر کیا ہے اور 2002ء میں قادیانی ہونے کا فارم بھرکر آج بھی مجلس خدام احمدیہ میں کام کررہے ہیں ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 17ناموں کو چھوڑ کر صرف اور صرف عاطف میاں کے نام پر ہی پاکستانی عوام کو کیوں اعتراض ہوا ۔برصغیر پاک و ہند میں ختم نبوت کے حوالے سے خاص حساسیت پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں سے دشمنان اسلام نے مرزاغلام احمد قادیانی کی شکل میں اک ایسا مہرہ میدان میں اتارا تھا جس نے مسلمانوں کے دل چھلنی کردئیے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد سعی مسلسل سے انہیںآئینی طور پر غیر مسلم قرار دلوایا گیا ۔اسلام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور انہیں کسی حد تک آزادی فراہم کی جاتی ہے اور بعض معاملات میں تو انہیں مسلمانوں کے برابر حقوق بھی میسرہوتے ہیں لیکن ایسا گروہ جو اپنے آپ کو اسلام کی بنیادی شرط سے انکاری ہونے کے باوجود مسلمان کہلوانے پر بضد ہو اور اپنے افکار وخیالات کو نہ ماننے والوں کو گندے گندے الفاظ و القابات سے یاد کرتا ہوتو ایسے گروہ کے لیے مسلمانوں کے دل میں اک خاص طرح کی نفرت پنپ جانا فطری بات ہے ۔قیام پاکستان کے وقت جالندھر،امرتسر،ہوشیار پوراور دیگر ہندوستانی اضلاع سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر سکھوں نے جو کچھ کیا وہ اک الگ تاریخ ہے لیکن اسکے باوجود مسلمانان پا کستان نے کبھی بھی پاکستان میں قیام پذیر سکھوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور یہی حال دوسری اقلیتوں کا بھی ہے۔پاکستان میں کئی غیر مسلم اہم اور امتیازی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ جسٹس بھگوان داس ماضی قریب میں چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور ان سے قبل جسٹس کارنیلیئس سمیت عیسائی کمیونٹی کے کئی لوگ عدلیہ، فورسز اور دیگر محکموں اور اداروں میں بھی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں ان پر تو کبھی کسی نے انگلی تک نہ اٹھائی ۔یہ لوگ اپنے مذہب کے تابع رہتے ہوئے پاکستان کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔قادیانیوں کا مسئلہ دوسری نوعیت کا ہے کیونکہ یہ ایک مرکزی جماعت اور امیر کے تابع اور ماتحت ہیں ۔ربوہ (چنیوٹ کے قریب اک علاقے کانام)ان کا مذہبی مرکز ہے اور وہیں پر ایک قبرستان ہے جسے قادیانیت میں غیر معمولی اہمیت ہے ۔قادیانیوں کا سارا کچھ ان کے امیر کے گرد گھومتا ہے اور جس قدر کوئی قادیانی امیر جماعت کے قریب ہوگا، وہ اتنا ہی اپنے نیٹ ورک سے استفادہ کرسکتا ہے ۔اک لمباعرصہ گزرنے کے باوجود قادیانی جماعت اپنے اس گرداب سے نہیں نکل پائی اور اکثر وبیشتر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی نظر آتی ہے۔ ایسے میں قادیانی جماعت کے امیر مرزا مسرور کے ایڈوائزرعاطف میاں کوکس طرح سے پاکستان میں معاشی مشاورتی کونسل میں قبول کیا جاسکتا ہے ؟اب جبکہ عاطف میاں والا معاملہ حل ہوچکا ہے لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ چکا ہے ۔ان سارے سوالات کا جواب یہی ہے کہ جب تک قادیانی جماعت، ان کا خلیفہ، مرکزی قیادت پاکستانی ریاست کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل نہیں کر لے گی، تب تک ان کے حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر شکوک برقرار رہیں گے۔اگر وہ اپنا موقف تبدیل کرلیتے ہیں تو ان کے ساتھ بھی دیگر اقلیتوں کی طرح ہی سلوک روا رکھا جائے گا ۔عمران خان اور ان کے وزراء کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان بے عمل ہوسکتا ہے اس سے معاملات میں اونچ نیچ ہوسکتی ہے لیکن کچھ معاملات میں یہ انتہاپسند واقع ہوا ہے جس میں ایک ختم نبوت والا معاملہ بھی ہے ۔ 
 

شیئر: