اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کے لئے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
***احمد آزاد۔ فیصل آباد***
ایک کروڑ10لاکھ کے قریب پاکستانی دوسرے ممالک میں مقیم ہیں جن میں سعودی عرب،برطانیہ،متحدہ عرب امارات،امریکہ ،کینیڈا، عمان،فرانس،جرمنی،بحرین، ناروے،آسٹریلیا،یونان ،ترکی اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔پاکستان کا ہر تیسرا شہری چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہنرمندباہر جانے کے خواب دیکھتا ہے ۔ملک میں بے روزگاری کا بڑھتا ہوا عفریت اس خواہش کو مزید پروان چڑھاتا ہے اور بندہ دن رات ایک کرکے اپنے مال ومتاع کو بیچ کرملک سے باہر جاکر اپنا معیار زندگی بہتر کرنے کی سعی میں جُت جاتا ہے ۔ماں باپ، بہن بھائی ، بیوی بچے،یاردوست، چوک چوراہے اور کھیت کھلیان چھوڑ چھاڑ کر اچھے مستقبل کی آس باندھے دیار غیر میں جابیٹھتا ہے ۔دیار غیر میں شب وروز کوہلو کے بیل کی طرح کام کرکے وہ پاکستان میں اپنے والدین اور بیوی بچوں کو رقوم بھیجتے ہیں اور یہی رقوم ملکی معیشت میں اہم کرداراداکرتی ہیں ۔وائے قسمت کہ ملک میں ذہین ترین،ہنرمنداورقابل فخر نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے جبکہ انہیں مختلف توجیحات ومشکلات کے ذریعے دوسرے ملک کی راہ دکھلائی جاتی ہے اور پھر پاکستانی نوجوان ترستی ماں کے سینے سے جداہوکر مہندی لگے ہاتھوں کو الوداع کہہ کر ان دیکھی دنیا میں بسیرا کرتا ہے اور تلخ سے تلخ حالات کا سامنا کرتے ہوئے ملک اور خاندان کو ماہانہ بنیادوں پر رقم بھیجنا شروع کردیتا ہے ۔
برآمدات کے بعد دوسرا بڑا ذریعہ دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں ۔اگر بات کی جائے صرف سال 2017-18کی تو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے جار ی کردہ پریس ریلیز کے مطابق اس سال اوورسیز پاکستانیوں نے19ارب 62کروڑ 26لاکھ 20ہزار امریکی ڈالر وطن بھجوائے ہیں۔صرف جون کے مہینے میں سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،امریکہ ، برطانیہ ،بحرین ،کویت، قطر ،عمان اوریورپی ممالک سے بالترتیب 336.61ملین،340.55ملین، 248.79 ملین، 245.10ملین ،163.53ملین اور 62.14ملین ڈالرپاکستان بھیجے گئے ہیں۔ ملائیشیا،ناروے ،سوئٹزرلینڈ،آسٹریلیا،کینیڈا، جاپان اور دوسرے ممالک سے 197.69ملین ڈالر رقم پاکستان بھیجی گئی ہے ۔اگرچہ ترسیلات زر کا ہندسہ 20ارب ڈالر تک نہیں پہنچ پایا لیکن پچھلے سال کی نسبت 1.4فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے باوجود ملکی معیشت خطرناک صورت حال پر کھڑی ہے ۔ہمارے حکمرانوں کی جانفشانیوں اور مہربانیوں کی وجہ سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے اور ملکی معیشت اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے ۔دوست ممالک امداد دے کر ہمیں وقتی استحکام دینے کی کوشش میں ہیں۔ ایسے میں اگر غریب الوطن لوگ اپنی محنت کی کمائی سے ملکی معیشت کو سہارا دئیے ہوئے ہیں تو بدلے میں حکومتی سرکارکو بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا ۔تحریک انصاف کے متوقع وزیراعظم عمران خان تارکین وطن میں اچھی ساکھ رکھتے ہیں اور ماضی میں ہسپتال اور یونیورسٹی کیلئے اچھا خاصا فنڈ اکٹھا کرچکے ہیں ۔اوورسیز پاکستانی ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر گزارہ نہیں۔چین و سعودی عرب جیسے دوست اگرچہ اس بار بھی سہارا دینے کو پہنچ رہے ہیں لیکن ہمیں ان سہاروںکو استعمال کرنے کی بجائے ان کے شانہ بشانہ چلنے کی روایت ڈالنی ہوگی ۔
متوقع وزیرخزانہ اسدعمر نے غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے قرضے لینے جیسے قدم کے اٹھائے جانے کا بھی عندیہ دیا ہے ۔ماضی میں بھی ’’قرض اتارو اور ملک سنواروں ‘‘ جیسی تحریک چل چکی ہے جس کے بعدقرضے اترے نہ ملک سنورا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ حکمرانوں اور ان کے قرب وجوار میں بیٹھے منظور نظر اشخاص کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوا ہے ۔کن وجوہات پر بیرون ملک مقیم پاکستانی حکومت پاکستان کو قرضے فراہم کریں گے اور ان کو کیا سیکیورٹی فراہم کی جائے گی ؟اس پر تحریک انصاف کو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی ۔ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی ، امن وامان کی پھر سے بگڑتی صورت حال، ملکی اداروں پر اچھالا جانے والا کیچڑ اور پاک فوج کے حوالے سے کیا جانے والا بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی بیرون ملک پاکستانیوں اور دیگر سرمایہ کاروں پر منفی تاثر چھوڑتا ہے جسے ہمیں فی الفور حل کرنا ہوگا ۔ بیرون ملک پاکستانی اپنے پیسے کو ملک میں لانے سے پہلے ملکی صورت حال کو لازمی طورپر دیکھیں گے اور پھر اس پروگرام کو دیکھیں گے کہ کس پروگرام کے تحت ان سے قرضہ یا سرمایہ کاری کروائی جائے گی ۔تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے پہلے اوورسیز پاکستانیوں کی شکایات کو حل کرنا ہوگا ۔پاکستانی سفارت خانوں میں میرٹ کی بنیاد پر سفیر منتخب کرنے ہوں گے ۔غریب الوطن لوگوں کو رہائشی کالونیوں میں جو پلاٹ دئیے جاتے ہیں اور اس پلاٹ کے ساتھ جو حال ہوتا ہے وہ اک الگ دل چیر دینے والی داستاں ہے ۔قیمت سب سے قیمتی پلاٹ کی لی جاتی ہے اور دیا ارزاں جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو ہائی وولٹیج لائنوں والا پلاٹ الاٹ کردیا جاتا ہے کیونکہ غریب الوطن بندہ سوائے کوسنے کے اور کر کیاسکتا ہے ؟اور ان کے پلاٹوں پر قبضے ہونا اک عام سی بات ہے ۔پٹواری، تحصیلدار اورعدالتوں کے چکر لگاتے اوورسیز پاکستانی کس قدر اذیت وکرب میں مبتلا ہوتے ہوں گے کسی سے پوچھ کر دیکھئے گا۔ تحریک انصاف کو دوسرے اداروں کی طرح اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔چندہ سازی کے لیے سبھی جماعتیں دوسرے ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے سبز باغ دکھا کر خوب چندہ لیتی ہیں لیکن ان کے لئے قانون سازی کرنا اور انہیں سہولیات دینا اک ایسا خواب ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے کو آنکھیں ترس رہی ہیں ۔
ہماری وزارت خزانہ یہ تو بخوبی سمجھتی ہے کہ بیرونی ترسیلات پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتی ہیں لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حقوق کے لیے کوئی بھی مربوط قانون سازی ماضی میں نہیں کی جاسکی ۔عمران خان اپنی تقریروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے امید نو دلاچکے ہیں ۔تحریک انصاف کے چیئرمین نے متعدد بار اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ’’ اوورسیز پاکستانی ہمارا سرمایہ ہیں ہم اْن کو پاکستان میں سازگار ماحول اور جان و مال کا تحفظ دیں گے تاکہ وہ پاکستان میں بلاخوف وخطر سرمایہ کاری کریں، جس سے ملک ترقی کی منازل جلد طے کرے۔‘‘تحریک انصاف اگر اوورسیز پاکستانیوں کو بہتر اور سازگار ماحول فراہم کرنے ، ان کی شکایات کاازالہ کرنے اور اپنے سفارت خانوں میں سے سیاسی لوگوں کو نکالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو آنے والے چند ماہ میں اوورسیز پاکستانی اپنا سب کچھ پاکستان میں لانے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو آنے والے انتخابات میںتحریک انصاف کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے میں اوورسیز پاکستانی سرفہرست ہوسکتے ہیں۔