صہیونیوں کی ”نیک نیتی“ ملاحظہ ہو
جمعرات 13 ستمبر 2018 3:00
شریف قندیل ۔ المدینہ
اسرائیلی عدالت نے مقبوضہ غرب اردن میں متسبی کارمت یہودی بستی کی قانونی حیثیت کی نشاندہی کرتے ہوئے بڑی عجیب و غریب بات کہہ دی۔ اسرائیلی عدالت نے کہا کہ اس بستی کے آباد کاروں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ حکومت اسرائیل نے انہیں جو زمین دی ہے وہ فلسطینیوں کی نجی ملکیت تھی لہذا جس وقت انہوں نے اس زمین پر قبضہ کیا وہ نیک نیت تھے اس لئے وہ اس زمین کے قانونی مالک بن گئے۔
صہیونیوں کی اسی طرح کی نیک نیتی وہ بھی بتائی جارہی ہے جس کا مظاہرہ مذکورہ زمین پر مقدمے کی سماعت کے دوران سننے میں آیا۔ اسرائیلی عہدیداروں نے کہا کہ حکومت نے جس وقت مذکورہ زمین یہودی آباد کاروں کو الاٹ کی تھی اُس وقت اسے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ وہ فلسطینی باشندوں کی زمین ہے۔
اس نیک نیتی کے تناظر میں نئی عرب نسلوں کو ”اسرائیلی جھوٹ“ کی حقیقت بھی معلوم کرنی ہوگی۔ کافی پہلے کی بات ہے جب مرد خوا مانویل نوح نے دریائے نیاگرا کے جزیرہ گرینڈ میں یہودیوں کیلئے وطن قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔ اسے ”ارارات “ کا نام دیا گیا تھا۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ مقدس کتا ب کے بموجب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جس جگہ لنگر انداز ہوئی تھی وہ ارارات پہاڑ ہی تھا۔ اس نسبت سے اسے ارارات کا نام دیا گیا۔
مرد خوا مانویل نوح نے امریکہ سے اپیل کی کہ وہ اس مشن کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے تاہم وہ اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔کاش کہ وہ کامیاب ہوجاتے۔
پھر برطانوی یوگینڈا پروگرام منظر عام پر آیا۔ اس کے تحت برطانیہ نے یہودی عوام کیلئے مشرقی افریقہ کاایک حصہ یہودی وطن کے طور پر مختص کرنے کا عندیہ دیا۔
1903ءکے دوران برطانوی کالونیوں کے وزیر جوزف چیمبر لین نے ٹیوڈر ہیرالڈ کی زیر قیادت صہیونی تنظیم کو تجویز دی کہ 13ہزارمربع کلو میٹر کا رقبہ یہودیوں کے وطن کے طور پر ماﺅ کوہستاتی علاقے (موجودہ کینیا ) مختص کیا جاسکتا ہے تاہم دیگر صہیونی تنظیموں نے نیک نیتی کے ساتھ یہ بات کہی کہ اگر برطانیہ کی یہ پیشکش قبول کرلی گئی تو ایسی صورت میں فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کامنصوبہ محال ہوجائےگا۔ اسی تناظر میں ایک وفد ماﺅ کوہستانی علاقے کے معائنے کیلئے بھیجا گیا۔ مبصرین نے دیکھا کہ مذکورہ علاقہ پُرخطر ہے، وہاں پر شیر اور دیگر درندوں کا ڈیرہ ہے۔ علاوہ ازیں وہاں ”ماسائی کے لوگ کثیر تعداد میں آباد تھے جو اپنے یہاں یورپی شہریوں کی یلغار برداشت نہیں کرسکتے تھے۔
آخر میں برطانوی وزیر خارجہ بلفور نے فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کیلئے جگہ مختص کرنے کا وعدہ کیا۔ پھر جنگیں ہوئیں۔ کشمکشوں کا سلسلہ پیدا ہوا۔ اس طرح اسرائیل نے اپنی نیک نیتی سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جو وہ حاصل کرناچاہتاتھا۔ القدس پر قابض ہوگیا۔ پھر نیک نیتی سے وہ سب کچھ ہوا جو صہیونی بعض عربوں کے ساتھ نیک نیت بن کر کرناچاہتے تھے۔ امن مذاکرات شروع ہوئے اور بدنیتی سے دوسری بدنیتی اور تیسری بدنیتی کا سلسلہ دراز ہوا۔ بیشتر علاقوں سے عرب دستبردار ہوگئے۔ کبھی جنگ کے نتیجے میں، کبھی امن مذاکرات اور کبھی یہودی آباد کاری کی یلغار پر سکوت اختیار کر گئے ۔ ہم اب ہم آہنگی کی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔
اللہ کا کرم یہ ہے کہ امت میں کچھ خواتین اور مرد ایسے ہیں جن پر ہمہ دم یہ شوق سوار رہتا ہے کہ انہیں اپنی عمر سے بڑی عمر مل جائے تاکہ وہ آزاد فلسطین کا منظر دیکھ سکیں۔
اللہ کا کرم یہ بھی ہے کہ لاکھوں لوگ ہر روز فلسطین کا نام دہرا رہے ہیں۔ فلسطین کی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہاں ہر لمحے ہزاروں فلسطینی جام شہادت نوش کرنے کیلئے تیار ہیں۔
اسرائیلی عدالت یہودی آباد کاری کو قانونی جواز کا سرٹیفکیٹ پیش کررہی ہے اور فلسطینی طلباءاپنے کورس کی کتابوں میں القدس کا نام تحریر کررہے ہیں اور جیل کی دیواروں پر اسکی تصاویر کے نقشے بنا رہے ہیں۔ فلسطین پناہ گاہوں کی خاموشی کے عالم میں چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میں یہاں ہوں۔یہودی آباد کاری کی مخالف انسانی حقوق کی اسرائیلی تنظیم کا کہناہے کہ اسرائیلی عدالت نے موجودہ حالات میں نیک نیتی کی تعبیر کا جو سہارا لیا ہے وہ رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے۔
میرا خیال یہ ہے کہ بعض عربوں کے کرتوت کچھ ایسے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے نیک نیتی والی اسرائیلی عدالت کی بات ٹھیک ہی لگتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭