Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”وہ شخص بھی بگڑی ہوئی عادت کی طرح ہے“

محمد امانت اللہ ۔ جدہ 
کہتے ہیںگولی دینا ہم جیسے انسان کا بنیادی حق ہے، وہ چاہے استعمال کرے یا نہ کرے۔ یہ ا سکی صوابدید پر ہے مگر گولی کھانا اسکا حق نہیں ہے ۔ کچھ دنوں قبل ہمارے دوست ظفری صاحب بیمار ہو گئے تھے۔ ہم دوستوں کے ہمراہ اُنکی عیادت کو اُنکے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت نے گولی دینا اورکھاناچھوڑ رکھا ہے ۔انجام کار یہی ہونا تھا شوگر ہائی ہو گئی ۔ظفری فرمانے لگے میری طبیعت قربانی کا گوشت کھانے کے بعد ہی بہتر ہوگی ۔ شاید وہ بھول گئے تھے کہ قربانی کا گوشت کھانے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے ۔کسی شاعر نے ایک شعر کہا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ :
”دل یہ کرتا ہے کہ تجھ پر جان و دل نچھاور کر دوںکہ تو اس بے وفائی کے دور میں بھی میرے ساتھ چل رہا ہے۔“کچھ حضرات توقربانی دیتے دیتے اڈیالہ تک پہنچ گئے ہیں ۔ 
رات بارہ بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی دیکھا تو ظفری صاحب کا نمبر تھا پریشانی کے عالم میں جواب دیتے ہوئے دریافت کیا کہ سب خیریت ہے ناں؟ حضرت فرمانے لگے سو رہے ہیں؟ سوچا جواب دوں سوتے میں کون جواب دیتا ہے پھر دوستی اور بیماری کا خیال آگیا۔
فرمانے لگے کل پاکستان جا رہا ہوں قربانی دینے۔ میں نے کہا ظفری صاحب پاکستان کے لئے قربانی آپ یہاں رہ کربھی دے سکتے ہیں۔ فرمانے لگے ارے نہیں بقرعید کی چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں اور فیملی پاکستان گئی ہوئی ہے اس لئے جانا ضروری ہے ۔ اتنی دیر سے فون کرنے کی معذرت چاہتا ہوں۔ گزارش یہ تھی کل کیا آپ مجھے ایئرپورٹ چھوڑ دیں گے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا چھوڑنے اور ایئرپورٹ چھوڑنے میں بڑا فرق ہے۔ بقول شاعر:
 گر چھوڑنا چاہوں تو نہیں چھوڑ سکوں گا
وہ شخص بھی بگڑی ہوئی عادت کی طرح ہے
میں نے ہامی بھر لی ۔فرمانے لگے کل گیارہ بجے گھر پر انتظار کروں گا۔میں نے فلائٹ کا ٹائم دریافت کیا تو گویا ہوئے کہ تین بجے دن میں ہے ۔ میں نے کہا اتنی جلدی آخر کیا ہے؟ ظہر کی نماز ادا کرکے ساڑھے بارہ بجے چلتے ہیں۔ میں نے انہیںعربی کا ایک مقولہ پڑھ کر سنایاکہ :
’ اول صلاہ ، بعدین شغل‘
  الغرض ظفری صاحب مطمئن ہو گئے ۔دوسرے دن صبح دس بجے ظفری صاحب کی کال آئی کہ محترم آپ رہنے دیں، میں نے آفس کے ایک ڈرائیور سے بات کر لی ہے۔ 
میں نے کہا جناب دوست میں ہوں یا ڈرائیور؟بہرحال ہم اس بات پر متفق ہو گئے کہ چھوڑنے میں ہی جاﺅں گا ۔تھوڑی دیر کے بعد ایک کسٹمر کا فون آیا جو میٹنگ تین بجے ہونی تھی اب وہ گیارہ بجے ہوگی میں نے ہامی بھر لی ۔میٹنگ سے بارہ بجے فارغ ہوا ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ گاڑی میں گھنٹی کی آواز آئی کہ پٹرول ختم ہونے والا ہے ۔ میں مطمئن تھا کہ راستے میں دو پٹرول پمپ آتے ہیں ۔ دل میں بار بار خیال آ رہا تھا میرے سارے کام ہو جاتے ہیں مگر تھوڑی مشقت کے بعد۔اِسی دوران میں پہلے پٹرول پمپ پر پہنچ گیا ۔ کیا دیکھتا ہوں ایک بڑا سا پٹرول ٹینکر کھڑا ہوا ہے جو پٹرول پمپ میں پٹرول ڈال رہا ہے اور پٹرول پمپ پر بورڈ لگا ہوا ہے کہ پمپ بند ہے۔ 
میں سمجھ گیاکہ میں گردش میں آگیا ہوں ۔ گاڑی مسلسل شور مچا رہی تھی کہ میرا پیٹ کسی وقت بھی خالی ہو جائے گا ۔ میں تیزی کے ساتھ دوسرے پمپ کی طرف روانہ ہو گیا جو میرے گھر کے قریب واقع ہے ۔ دور سے دیکھا پمپ خالی ہے تو شکر اداکیا ۔ جیسے ہی قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بورڈ لگا ہوا ہے نماز کا وقفہ ہے۔میں نے گاڑی وہیں کھڑی اور پاس ہی مسجد کی طرف چل دیا ۔ امام صاحب دیکھ کر حیران تھے کہ آخری صف کے نمازی آج اتنی جلدی ۔
نماز کی ادائیگی کے بعد پٹرول پمپ پر پہنچا اور ٹینکی فل کرنے کا اشارہ کیا۔یکدم خیال آیا جیب میں صرف دس ریال ہیں۔ پھر سامنے اے ٹی ایم پر نظر پڑی توجان میں جان آئی ۔ جیب سے کارڈ نکالا اور مشین کے حوالے کر دیا۔ نہ پیسے نکلے اور نہ کارڈ باہر آیا ۔ اس دوران ٹینکی فل ہو چکی تھی اور دوسری گاڑیاں ہارن بجا رہی تھیں کہ اپنی گاڑی یہاں سے ہٹاﺅ ۔ میں پٹرول پمپ کے منیجر کے پاس گیا اور اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کا ذکر کیا ۔ اُسنے کہا آپ اپنا ڈرائیونگ لائسنس ہمارے حوالے کر دیں جب پیسے لے کر آئیں گے تومیں واپس کر دوں گا۔ 
گھڑی پر نظر ڈالی تو سوا بج رہا تھا۔ گاڑی بھگاتا ہوا ظفری صاحب کے گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موصوف سامان کے ساتھ بیچ روڈ پر کھڑے ہیں ۔ فرمانے لگے کب سے کال کر رہا ہوں جواب تو دے دیتے ۔میںنے موبائل دیکھا تو سائیلنٹ پر تھا ۔میں نے مسجد جاتے ہوئے خاموش کیا تھا پھر نکلتے وقت بھول گیا پریشانی میں کہ اِسکوواپس اصلی حالت میں بھی لانا ہے۔ 
بیمار ظفری نے سامان گاڑی میں رکھنا شروع کردیا ۔ ایک بڑا سا سوٹ کیس اٹھانے لگے۔ میں نے کہا کہ رُکیں میں آپکی مدد کرتا ہوں مگر انہوں نے اُس سوٹ کیس کو اِس طرح اٹھایا جیسے ریسلنگ میں ایک پہلوان دوسرے کو اُٹھا لیتا ہے۔ اب ہم تیزی کے ساتھ منزل کی طرف گامزن تھے :
منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی 
کچھ خوش خیال لوگ ا بھی تک سفر میں ہیں 
ہم منزل سے چند منٹوں کے فاصلے پر تھے۔ ایئرپورٹ کی عمارت میں داخلے سے قبل ایک چیک پوائنٹ ہے وہاں مجھے روک کر گاڑی کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس طلب کیا ۔ڈرائیونگ لائسنس تو پٹرول پمپ پر پڑا پٹرول پی رہا تھا ۔بڑی منت سماجت کے بعدہم نے کسی نہ کسی طرح ظفری کو ایئرپورٹ پر چھوڑا ۔
ہم مغرب کی نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے توایسا لگا کہ ظفری پہلی صف میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پہلے تو میں نے اپنا وہم سمجھا قریب جا کر دیکھا تو ظفری ہی تھے۔میں نے شرمندگی کا اظہار ظاہر کیا ۔ فرمانے لگے حیرت ہے ،آپ بھی شرمندہ ہوتے ہیں ۔ میرے سسرال والے اسپیشل مٹن بریانی بنا کرمیرا انتظار کرتے ہی رہ گئے ۔ دل میں خیال آیا کہ کہہ دوں کہ جس شہر میں سسرال والے آپ کا ا نتظار کر رہے تھے ، وہاں کی مٹن بریانی اکثر کہنے کو ہی مٹن بریانی ہوتی ہے ۔ 
میں نے استفسار کیا کہ اگلی فلائٹ کب کی ہے ؟فرمانے لگے کل صبح فجر کی نماز کے بعد۔ میں نے کہا آپ فکر نہ کریں، انہوں نے میرا جملہ مکمل نہیں ہونے دیا اور بلا معذرت قطع کلامی کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ”برائے مہربانی آپ مجھے فکر کرنے دیں، میں نے ایئر پورٹ جانے کے لئے فیصل معین سے بات کر لی ہے ۔وہ ایک ذمہ دار شخصیت ہیں اور سب سے بڑھ کر پہلی صف کے ساتھی ہیں۔ 
دوسرے دن صبح صبح واٹس ایپ پر سیلفی دیکھی جوظفری صاحب نے امیگریشن کراس کرنے کے بعد کھینچی تھی ۔ میں نے فیصل معین کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ ظفری نے بڑا سوٹ کیس خود بڑی جواں مردی سے اُٹھا کر گاڑی میں رکھا تھا ۔ جمعہ کی نماز کے بعد ظفری کا فون آیا۔میں نے شکریہ اداکیاکہ گھر پہنچ کر مجھے یاد رکھا ۔ فرمانے لگے کون سا گھر اور کہاں کا گھر میں جدہ ایئرپورٹ پر ہوں ۔ اب دوسرے دن جاﺅں گا ۔میں نے کہا اب کیا ہوا؟ کہنے لگے سوٹ کیس ”البیک“ سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہیں خراب نہ ہو جائے، سوٹ کیس کھول کر ”اے سی“ کے پاس بے فکر ہو کر بیٹھ گیا اور کرسی گرم کرنے لگا ۔ اِسی بے فکری میں معلوم نہیں کب اناﺅنسمنٹ ہوئی اور جہاز چلا گیا ۔ 
اِس وقت سوٹ کیس میں سے البیک نکال کر لوگوں میں تقسیم کر رہا ہوں۔ ایک شخص کی باتیں سن کر حیران ہو گیا ہوں۔ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ ایئرپورٹ پر پہلا سخی دیکھا ہے جو پینٹ شرٹ میں ملبوس ہوکر لوگوں میںچرغے تقسیم کر رہا ہے ۔بہر حال بکرا قسطوں کی طرح ظفری عید کے دوسرے دن آخر کار سسرال پہنچ ہی گئے ۔ 
 

شیئر: