سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کے دوران وکیل صفائی کی جانب سے ماڈل ٹاؤن کے متاثرہ او چشم دید گواہ محسن رسول کو تھپڑ مارے جانے پر ٹویٹرصارفین کا شدید رد عمل سامنے آرہا ہے اور وہ چیف جس سے اس واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اعجاز محمود صائم نے سوال کیا : جناب چیف جسٹس صاحب ہم انصاف کیلئے عدالتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ہمیں انصاف نہیں تھپڑ پڑ رہے ہیں۔ کیا یہاں جنگل کا قانون ہے؟ غنڈے قانون کے تابع ہیں یا قانون غنڈوں کے تابع ہے؟
جاوید اقبال نے لکھا : شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء چار سال سے عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ اب حکومتی وکیل کوئی جواب نہ ہونے پر انہیں تھپڑ مار کر بھی اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ شہداء کے ورثاء کو انصاف دیا جائے۔
عتیق واصل نے کہا : یہ تھپر آزاد ، خود مختار اور غیر جانبدار عدلیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔
تانیہ جٹ نے کہا : اگر عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون ہے تو یہ ریاست نے ایک معصوم شہری کو تھپڑ مارا ہے۔ یہ بھی ریاستی دہشت گردی ہے۔
نوید احمد نے ٹویٹ کیا : پاکستان کو ان تمام افراد کو گرفتار کرنا چاہیے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث تھے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کے لواحقین کو انصاف ملے گا۔
ناہیدہ راجپوت نے سوال کیا : چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اس نا انصافی کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے؟
منیر حسین نے لکھا : گولیاں بھی ہمیں ، لاٹھیاں بھی ہمیں ، مقدمات بھی ہم پر اور تھپڑ بھی ہمیں کو ۔ واہ رے اندھے قانون۔
اقراء مسوان نے ٹویٹ کیا : جب حکومت قاتلوں کے ساتھ اس قدر ہمدردی دکھائے گی تو مظلوموں کو تھپر ہی پڑیں گے۔
ڈاکٹر باریہ بخاری نے کہا : چیف جسٹس صاحب بھری عدالت کے دوران کیس میں اپنی شکست دیکھ کر گواہ کو تھپڑ مارنے پر خاموشی دراصل پاکستان کی عدلیہ کے منہ پر تھپڑ کے مترادف ہے۔ عوام کو آپ سے انصاف کی امید ہے۔ آپ کو اس وکیل کا لائسنس کینسل کرنا اور سزا کا حکم دینا چاہیے۔