عربی جریدے عکاظ نے ایک رپورٹ شائع کرکے واضح کیا ہے کہ ایک سعودی یونیورسٹی نے زرعی امو ر کے ماہر غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کرنے کیلئے اشتہار دیا ہے۔ اخبار میں توجہ دلائی گئی ہے کہ یونیورسٹی نے 6ممالک میں موجود کلچرل اتاشیوں کے نام خطوط لکھ کر زرعی امو رکے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔ مصر، سوڈان، اردن، تیونس، الجزائر اور مراکش میں موجود کلچرل اتاشیوں کے نام خطوط تحریر کئے گئے۔ شرط یہ لگائی گئی کہ یہ سب پی ایچ ڈی ہوں ۔ واضح کیا گیا کہ یہ سب ”ماہرین “ کے عنوان سے کام کرینگے۔آبی زراعت ، گرین ہاﺅسز میں کھیتی باڑی، پھلوں کے باغات کی تیاری ، بیج تیار کرنے، پودے لگانے اور نرسری سے متعلقہ امور انجام دینگے۔
عکاظ نے 16ذی الحجہ 1439ھ کو یہ رپورٹ جاری کی جس میں بعض سعودی شہریوں کی جانب سے خدشات ظاہر کئے گئے کہ سعودی یونیورسٹی نے یہ اقدام سعودائزیشن کی پابندی سے بچاﺅ کیلئے کیا ہے۔ شہری خدمات کے قوانین کے تحت تمام سعودی جامعات اس بات کی پابند ہیں کہ وہ کسی بھی اکیڈمیشن کی ضرورت پڑنے پر اندرون ملک اسکا اشتہار دیں۔ سعودیوں سے درخواستیں طلب کریں۔ مقامی شہریوں کی جانب سے درخواست نہ ملنے پر متعلقہ ممالک میں اپنی ضرورت کا اشتہار جاری کریں۔ اسی دوران سعودی مجلس شوریٰ کے رکن ڈاکٹرسعید قاسم الخالدی المالکی نے عکاظ اخبارسے 22ذی الحجہ 1439ھ کو گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1437ھ سے متعلق وزارت شہری خدمات کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ صحت میں غیر ملکی کارکنان کی تعداد 41ہزار ہے۔المالکی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے کاموں کیلئے ہمیشہ غیر ملکیوں پر انحصار کرنا درست نہیں۔
دوسری جانب انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بیرون مملکت سے ماہرین کیساتھ ملازمت کا معاہدہ معیار کو یقینی بنائے رکھنے اور فرضی جامعات سے ڈگریاں حاصل کرنے والوں سے بچنے کی خاطر کیا گیا ہے تو جامعات کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ غیر ملکی اساتذہ و اسکالرز کے انتخاب کیلئے ملازمت فراہم کرنے والی کمیٹیوں کی جانب سے انٹرویو کرلینا کافی نہیں ہوگا۔ معاہدے کی شرائط اور ضوابط کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔
ہر یونیورسٹی کا حق ہے کہ وہ اعلیٰ دماغ حاصل کرے۔ تجربہ کار اساتذہ جمع کرے۔ فرضی ڈگریاں رکھنے والوں سے خواہ وہ سعودی ہوں یا غیر ملکی ہوں احتیاط برتے تاہم سعودائزیشن بنیادی قومی ہدف ہے، اس سے اس وقت تک دستبردار نہیں ہوا جاسکتا تاوقتیکہ مطلوبہ شعبے میں باصلاحیت مقامی شہری ناپید نہ ہوں ۔ میں کئی بار فرضی ڈگریوں کے انسداد اور دولت یا دوستی کی بنیاد پر ڈگریاں لینے والوں کے احتساب کا مطالبہ کرچکا ہوں۔ ایسا کرکے ہی ہم صاف ستھرا ماحول برپا کرسکیں گے اور حقیقی سعودائزیشن کا ہدف پورا کرسکیں گے۔