Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اونروا.... استحکام کا ستون گرنے لگا

ڈاکٹر طلال صالح بنان ۔عکاظ
یکم ستمبر 2018ءکو اقوام متحدہ نے فلسطینی پناہ گزینوںکے روزگار اور مدد کےلئے قائم اقوام متحدہ کی ایجنسی” اونروا“ کی مالی مدد بند کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ ایجنسی 1948ءکی جنگ کے بعد9دسمبر 1949ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قائم کی تھی۔ اس کا سالانہ بجٹ 2ارب ریال کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ 370ملین ڈالر سالانہ ادا کررہا تھا۔ امریکہ اونروا کا سب سے بڑا مالی مدد گار تھا۔ امریکہ کے بعد یورپی یونین میں شامل ممالک تھے جو سالانہ 160ملین ڈالر دے رہے تھے۔ تیسرے نمبر پر سعودی عرب رہا جو 148ملین ڈالر سالانہ کی امداد دے کر دنیا کے دیگر ممالک میں سرفہرست ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اونروا کو ایک تہائی بجٹ نہ ملنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ایک تہائی بجٹ امریکہ فراہم کررہا تھا۔ اس سے اونروا کی سرگرمیاں متاثر ہونگی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کو مالی خسارہ ہوگا بلکہ سیاسی اور اخلاقی مسائل بھی پیش آئیں گے۔ امریکہ نے اس حوالے سے جو خطرناک فیصلہ کیا ہے ،وہ ایک طرح سے دنیا کے طاقتور اور مالدار ترین ملک کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلا ف وزری ہے۔ امریکہ نے امداد بند کرنے کا فیصلہ کرکے اقوام متحدہ کے فیصلے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ عالمی قرارداد میں تحریر ہے کہ مذکورہ ایجنسی کا ہدف یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ وطن سے جبری انخلاءپر مجبور ہونے والے فلسطینیوں کے مصائب دور کرنے میں حصہ لے گی بلکہ وہ انہیں اسرائیلی جارحیت کے باعث روزگار سے محروم ہوجانے پر روزگار کا بھی بندوبست کرے گی۔ انہیں وطن واپس کرانے کی بھی تگ و دو کریگی۔ فلسطینی پناہ گزینوںکی وطن واپسی سے ہی اونروا کا اصل مشن پورا ہوگا۔ کہہ سکتے ہیں کہ اونروا فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حوالے سے بین الاقوامی، اخلاقی اور قانونی سرچشمہ ہے۔
امریکہ نے اونروا کے خلاف جو فیصلہ کیا ہے، اسکا سیاسی اور اخلاقی خمیازہ بہت بڑا ہے۔ یہ امریکہ کی جانب سے مالی تعاون سے کہیں زیادہ سیاسی و اخلاقی عمل کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور انکی انتظامیہ صرف مالیاتی پہلو پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جبکہ مالیاتی مدد بند کرنے کے نتائج بجٹ کی فراہمی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس سے امریکہ کی حیثیت اور رتبہ اور عالمی امن و استحکام کے تحفظ میں اسکے فرض کی حیثیت مجروح ہوگی۔ اس سے فلسطینیوں کی واپسی کا بنیادی حق متاثر ہوگا۔ یہ حق مشرق وسطیٰ کے بحران کے تصفیہ کی بنیادی شرط ہے۔ دوسری جانب امریکہ اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کی لامحدود مدد پر کمر بستہ نظر آرہا ہے۔ 
اقوام متحدہ کی انتہائی اہم ایجنسی کیخلاف امریکہ کے اس اقدام سے ایجنسی کی مہم بند نہیں ہوگی۔ اسکا مالیاتی خسارہ برقرار نہیں رہیگا کیونکہ بہت سارے ممالک، این جی اوز اور مختلف شخصیات اس خلا کو پر کردیں گی۔ علاوہ ازیں خود اونروا کفایت شعاری والے اقدامات بھی کریگی۔
اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے عالمی امن و استحکام میں معاون بین الاقوامی ایجنسی کے حوالے سے جو غیر اخلاقی اقدام کیا ہے، اس سے اسکا اصل مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اصل مقصد فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنا ہے۔ یہ مقصد” صدی کے سودے“ کے عنوان سے کئے جانے والے اقدام کے تحت حاصل نہیں ہوسکتا۔
ایک اور تاریک منفی پہلو ہے ،وہ یہ کہ اگر اونروا 3عرب ممالک شام، لبنان و اردن نیز غرب اردن اور غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کی خدمت اور مدد کا سلسلہ بند کردے تو ایسے عالم میں منظر نامہ کیا ہوگا؟50لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں میں سے 5فیصد اونروا سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ مدد بند کرنے پر موجودہ استحکام کا منظر نامہ الٹ جائیگا۔ امریکہ نے اونروا کی مدد بند کرنے کا فیصلہ عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے کیا ہے۔ مدد کی اس بندش سے جو بحران پیدا ہوسکتا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے انسانی ضمیر کی بیداری ناگزیر ہے۔ عدم استحکام کے خطرے کو ٹالنے کیلئے ممکن ہے کہ امریکہ کا یہ منفی اقدام فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کے حل کا محرک بن جائے۔ ممکن ہے کہ اسکی بدولت مسئلہ فلسطین صہیونیوں کے طے کردہ پروگرام کے برعکس حل ہوجائے اور یہ اقدام خود اسرائیل کے زوال کا باعث بن جائے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ امکان نہ تو صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ذہن میں آیا ہے اورنہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیاہو کے دماغ میں اسکا وسوسہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہی مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے صہیونیوں کی توجہ اس جانب گئی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: