گلوبل وارمنگ سے جنگ کا اہم ترین ہتھیار”درخت“
درختوں کوانسانی معاشرے کے پھیپھڑوں کا درجہ حاصل ہے
عنبرین فیض احمد۔ ینبع
وطن عزیز میں ہونے والی موسمی تبدیلیاں سبھی کیلئے نہ صرف تکلیف دہ بلکہ تشویشناک بھی ہوتی ہیں۔ گرمیوں کا موسم طویل ہونااور سردی ایک یا دو مہینے تک محدود۔ کبھی خشک سالی تو کبھی بے موسم کی بارش ۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو توجہ طلب ہیں۔ مستقبل میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی خاص حکمت عملی ترتیب نہیں دی گئی، نہ پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی منصوبہ بنایاگیا۔ برسوں سوئی صرف کالا باغ ڈیم پر ہی اٹکی رہی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ تمام تر ذمہ داریاں حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہونا چاہئے ۔ بحیثیت پاکستانی شہری ہمیں خود بھی وطن عزیز کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہئے۔
بدقسمتی سے رواج یہ بن چکا ہے کہ گھر صاف کرکے کچرا گلی محلے میں پھینک دو۔ یہ مہذب معاشرے کے افراد کو زیب نہیں دیتا۔ اس طرح کی حرکت سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مختلف اقسام کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ہماری اپنی حرکتیں تو ایسی ہیں اور ہم ہیں کہ نالاں حکومت سے رہتے ہیں کہ وہ شہریوں کے حقوق صحیح طرح ادا نہیں کرتی۔ تمام باتوں سے قطع نظر کچھ اقدامات ایسے بھی ہیں جو بحیثیت شہری بآسانی انجام دیئے جاسکتے ہیں جس سے بڑھتی ہوئی آلودگی ختم نہیں ہوتو اس میںکم از کم کمی ضرور لائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابر رحمت سے بھی ہم بروقت مستفید ہوسکتے ہیں۔ ان اقدامات میں شجرکاری اور پودوں کی نگہداشت سرفہرست ہے۔
ہمارے ہاں درختوں کی آئے روز کٹائی لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جس لحاظ سے یہ کٹائی ہورہی ہے اس رفتار سے پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا وطن ان خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے جہاں شجرکاری کا موسم سال میں دو بار آتا ہے۔ اس کے باوجود اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ پودے لگائے بھی جاتے ہیں تو ان کی نگہداشت اور حفاظت کی جانب قطعی توجہ نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ابتدائی مراحل میں ہی مرجھا جاتے ہیں۔ ہریالی زندگی کیلئے کتنی اہم ہے اس سے کون واقف نہیں۔ اپنے تئیں شجرکاری کی مہم شروع کرنی چاہئے ۔ شہریوں میں شعور پیدا کیا جانا چاہئے کہ درخت لگانا صحت کیلئے کتنا اہم ہے۔ اس مقصد کیلئے انہیں خاطر خواہ معلومات فراہم کرنا ضروری ہے ۔ جو یہ کام انجام دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔ گھروں میں گملے رکھ کر ان میں پودے لگانے چاہئیں ۔ باغیچے، دالان، چھت ، اسکول، کالج، سڑ ک کے کنارے اور دیگر جگہوں پر جہاں آسانی سے پودے لگائے جاسکتے ہیں ، ضرور لگانے چاہئیں۔ گلوبل وارمنگ سے جنگ کا سب سے اہم ہتھیاردرخت ہی ہیں۔ گرین ہاﺅس ایفیکٹ سمیت سیلاب جیسی متعدد آفات سے بچنے کاذریعہ بھی یہی درخت ہیں۔
پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس کا فضا میں بڑھتاہوا تناسب گرین ہاﺅس ایفیکٹ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے یعنی ہم صرف پودے لگاکر ہی ماحولیاتی مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ پودوں اور درختوں کی وجہ سے بارش بھی بروقت اور زیادہ ہوتی ہے ۔ موسم میں خوشگوار تبدیلی آسکتی ہے۔
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے ، اس میں دکھایاگیا ہے کہ حیدرآباد سندھ میں اسکول کی طالبات ویمنز پولیس اسٹیشن کے احاطے میں پودے لگا رہی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ جو ننھا پودا ان بچیوں نے لگایا ہے، کل وہ تناور درخت کی شکل میں سامنے ہوگا۔ جس سے نجانے کتنے ہی انسان مستفید ہونگے۔ سوچ کی یہی تبدیلی طاقتور بنائے گی۔ یہ بات اچھی طرح معلوم ہوچکی ہے کہ درحت اور پودے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کیلئے بھی انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پودے تمام جانداروں کی صحت کیلئے غذا فراہم کرتے ہیں۔ زمین سرسبز و شاداب اور ماحول کو صاف بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جاری شجرکاری مہم میں ہمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ درختوں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ممکن ہوسکے۔ شجرکاری جہاں زمین کی خوبصورت بڑھاتی ہے وہیں بہت سے اقتصادی فوائد کا باعث بھی بنتی ہے ۔
ماحولیاتی نظام کی خرابی کی اہم وجہ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلات اور دھواں ہے۔ حکومت کو اس کے سدباب کیلئے بھی موثراقدامات کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھرپور انداز میں سرکاری شجرکاری مہم کامیاب ہوجاتی ہے تو ماحولیات میں بہت حد تک بہتری آجائے گی ۔ ہر شخص ایک پودا لگائے اور بھرپور درخت ہونے تک اس کی ہر طرح دیکھ بھال کرے تو وہ اس کیلئے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔ جہاں چرند پرند اس درخت سے فیضیاب ہونگے، وہیں انسان بھی اس درخت کے سائے سے مستفید ہونگے۔ سبزہ اور درخت ہر دور میں انسان کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو زمین پر انسانوں کی بود و باش مشکل ہو جائے گی ، اس کا حل صرف اور صرف درخت لگانا ہے۔ افسوس ہم لوگ آج بھی درختوں کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز کو سرسبز بنانے کیلئے درخت لگانے ہونگے۔ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے شجر کاری وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ہم اس میں جتنا فعال کردار ادا کریں گے آنے والی نسلوں کا مستقبل اتنا ہی محفوظ اور صحت مند ہوگا۔ ہر شہری کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جو حکومتی ذمہ داران سڑکوں کو کشادہ کرنے کے چکر میں درخت کاٹ رہے ہیں ، انہیں چاہئے کہ وہ اس عمل سے باز آجائیں تاکہ ملک میں ہریالی برقرار رہے۔
جنگلات کو اجاڑنے کی بجائے حکومت کوایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے درختوں میں روز افزوں اضافہ ہو۔ اس وقت ملک میں جنگلات کی تعداد آٹے میںنمک کے برابر ہے۔ جنگلات نہ ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ درختوں کو انسانی معاشرے کے پھیپھڑوں کا درجہ حاصل ہے۔ وہ ٹھیک طرح سانس نہیں لے سکیں گے تو ظاہر ہے معاشرہ متاثر ہوگا، اس کا موسموں پربھی اثر پڑے گا۔ ماہرین جنگلات کے مطابق ملک کے چوتھائی حصے میں جنگلات ہونا انتہائی ضروری ہیں جو ذہنی تناﺅ کو دور کرنے میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔
گاﺅں دیہات کے مقابلے میں شہری زندگی میں ذہنی تناﺅ، ڈپریشن کی بڑی وجہ سبزہ نہ ہونا ہے۔ یوں تو ہر سال شجرکاری مہم پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ صحیح طریقے سے نگرانی نہیں کی جاتی۔ ان کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ابتدائی مرحلے میں پودوں کی نگہداشت نومولود کی مانند کی جانی چاہئے تب جاکر وہ پودا بہتر نشوونما پا کر تناور درخت بن سکتا ہے۔ سب کو صاف ستھرے ماحول کی خواہش تو ہے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آکسیجن کی فراہمی کیلئے درخت انتہائی ضروری ہیں۔ اپنا قومی فریضہ سمجھ کر ہر شخص کو شجرکاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ اسی صورت میں ماحول کو سرسبز و شاداب رکھا جاسکتا ہے۔