’’ماما! میں آزاد ہوچکی ہوں‘‘
عمراسحاق بٹ۔ لاہور
دوستو! میرا نام امل ہے، میری ماما کا نام بینش، بابا کا نام عمر ہے اور6 سال کی چھوٹی بہن کا نام انایہ ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی میں نے اپنی دسویں سالگرہ منائی تھی۔میں پاکستان کے معاشی مرکز میں رہتی ہوں ۔وہ شہر جو روشنیوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ یہ سب مجھے میرے بابا نے بتایا تھا۔
اور جو میری ماما ہیں، وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہیں اور ان کی خوشبو تو ایسی ہے کہ دل کرتا ہے ہمیشہ پاس ہی بیٹھی رہوں۔ وہ کھانے بھی بہت اچھے بناتی ہیں۔ مجھے ان کے ہاتھ کی بنی بریانی اور آلو قیمہ بہت پسند ہیں۔ بابا اور ماما دونوں کام پر جاتے ہیں لیکن وہ میری اور میری چھوٹی بہن کی ضرورتوں کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں۔
اور اس انایہ کی بچی کا میں آپ کو کیا بتاؤں، دراصل میں نے اللہ تعالی سے کافی دعائیں کی تھیں کہ مجھے ایک چھوٹی بہن چاہیے اور اللہ تعالی نے ہم سب کی سن لی اور یوں میری پیاری چھوٹی دوست انایہ آگئی۔
انایہ بہت شرارتی بچی ہے۔ شرارتی تو میں بھی تھی پہلے لیکن اس چھوٹی کے آنے کے بعد اب تنگ کرنے کا ذمہ اس نے اٹھالیا ہے۔ بہت تنگ کرتی ہے مجھے اور کافی لڑائی بھی ہوتی ہے میری اس سے لیکن خبردار! جو کسی اور نے میری چھوٹی بہن کو تنگ کرنے کی کوشش کی۔ماما بابا آپ کو بھی اس کی اجازت نہیں۔میرے بابا 25 جولائی کو ووٹ ڈال کر آئے اور پھر رات کو بہت خوش ہوئے کہ اب نئے پاکستان کا آغاز ہوگیا ہے ۔اب ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔
-
آپ بھی اردو نیوز میں لکھ سکتے ہیں، کلک کریں
اور پھر وہ دن آگیا جب مجھے بابا نے سب سے بڑی خوشخبری دی کہ ہم 13 اگست کی رات کوا سٹرینگز کا کانسرٹ دیکھتے ہوئے آزادی منائیں گے. مجھے اپنی زندگی کا پہلا بڑا کانسرٹ دیکھنے کی کافی خوشی ہورہی تھی اور پھر میں نے ماما اور انایہ کے ساتھ مل کر کانسرٹ دیکھنے کی پلاننگ شروع کردی۔
انایہ کے کپڑے تو ماما نے ہی سلیکٹ کیے مگر مجھے اپنا سرخ فراک بہت اچھا لگتا ہے ،سو میں نے اسے پہننے کی ضد کی اور ساتھ میں فراک پر پاکستان کا بیج اور سر پر سفید رنگ کا ہیئر بینڈ لگانے کا پروگرام بنایا اور ماما نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ 13 اگست کو بابا اور ماما گھر جلدی آگئے تھے کیونکہ انہیں میری آزادی منانے کی کافی خوشی تھی اور پھر ہم سب نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور تیار ہوگئے ۔ ماما نے انایہ کے بیک پیک میں ہمارے کانسرٹ پر کھانے کے لیے چیزیں بھی پیک کردیں اور پھر ہم سب خوشی خوشی گھر سے نکل پڑے۔ بابا گاڑی ڈرائیو کررہے تھے، ماما ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں اور میں اور انایہ ہمیشہ کی طرح پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اب ہم بڑے ہوگئے تھے اور ماما کی گود میں فرنٹ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
بابا نے گاڑی میں پاکستان کے ملی نغمے لگا لیے اور میں نے بھی انہیں جوش سے گانا شروع کردیا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے ماما سے موبائل مانگا کیونکہ مجھے سنیپ چیٹ پر اپنی اور انایہ کی تصویریں اور ویڈیو بنانی تھیں۔ ماما بابا اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے اور ہم دونوں موبائل سے کھیلنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ایک اشارے پر رکی۔ اس اشارے پر کافی گاڑیاں نظر آئیں لیکن رات کا وقت ہونے کی وجہ سے اندھیرا کا فی زیادہ تھا۔
مجھے پتہ نہیں کیوں اندھیرے کو دیکھ کر ڈر سا لگنے لگا لیکن میں نے پھر انایہ کو پیار کیا اور سارا ڈر غائب ہوگیا۔ پھر اچانک کچھ عجیب سا ہوا۔ بابا کی سائیڈ کا کسی نے شیشہ کھٹکھٹایا، میں سمجھی کوئی فقیر ہوگا۔ پھر بابا نے شیشہ نیچے کیا تو ایک گندی شکل والے انکل سامنے آئے، ان کے ہاتھ میں پستول تھا اور پھر وہ بدتمیزی کرتے ہوئے بابا سے چیزیں مانگنے لگے۔ بابا نے اپنا موبائل اسے دے دیا اور ماما نے اپنا بیگ۔ میں اور انایہ بہت ڈرے۔میں نے انایہ کو اپنی حفاظت میں لیا اور خاموشی سے پیچھے بیٹھ گئے۔
یہ سلسلہ تھوڑی دیر چلا اور پھر وہ گندے انکل چیزیں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے۔ ماما نے مجھے اور انایہ کو نیچے لیٹ جانے کا کہا۔ انایہ بابا کی سیٹ کے پیچھے سہم کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی لمحوں میں اشارہ کھلا اور بابا نے گاڑی چلادی لیکن پھر اچانک مجھے ایک شدید قسم کی آواز آئی اور ایسا لگا کہ مجھے کوئی چیز آکر لگی، میں وہیں سیٹ پرگرگئی۔
ماما نے بابا سے کہا کہ کسی نے گولی چلائی ہے پھر مجھے ماما کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور پھر ان کا ہاتھ خون سے بھر گیا۔ شاید مجھے گولی لگ چکی تھی۔ ماما چیخیں اور بابا سے کہا یہاں قریب ہی ہسپتال ہے ،جلدی چلو ،لگتا ہے ہماری امل کو گولی لگ گئی ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی تھی۔ بابا جلدی سے ہسپتال پہنچے اور مجھے گود میں اٹھالیا۔ یہ گود تو مجھے دنیا کی ہر تکلیف سے محفوظ رکھتی تھی مگر آج کیا ہورہا تھا۔
مجھے ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ ماما نے انایہ کو ایمرجنسی کے باہر اسٹول پر بٹھا دیا اور ڈاکٹرز نے مجھے چیک کرنا شروع کیا۔ مجھے ڈاکٹرز کی آواز سنائی دی۔ گولی پیچھے سر سے گھس کر ماتھے سے نکل چکی ہے، یہ اب نہیں بچے گے۔مجھے نہیں پتہ مجھے تو آزادی کانسرٹ جانا ہے، مجھے انایہ کے ساتھ کھیلنا ہے، مجھے ماما کی خوشبو سونگھنی ہے، مجھے بابا کی گود میں جانا ہے۔مجھےنے تو آج آزادی کا جشن منانا تھا۔
پھر اس کے بعد میری سانسیں ٹوٹنے لگیں ،مجھے ماما کی پریشان کن آوازیں اور بابا کا پریشان چہرہ معدوم ہوتا دکھائی دیا۔ ڈاکٹرنے بابا سے کہا اسے دوسرے ہسپتال لے جاؤ ،ہمارے پاس ٹریٹمنٹ نہیں ہے۔ میں حیران ہوگئی کیونکہ میں بھی تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور لوگوں کی جان بچانے کا کام کرنا چاہتی تھی مگر یہ کیا ڈاکٹر کہہ رہے تھے کہ اسے دوسرے ہسپتال لے جاؤ۔ میرے بابا کے کچھ رشتے دار بھی آگئے، مجھے آوازیں سنائی دیں کہ جب وہ بندہ ہمیں لوٹ کر فرار ہورہا تھا تو پولیس نے اسے دیکھ لیا اور اس گندے انکل پر فائرنگ کردی۔وہ بتا رہے تھے کہ ہماری گاڑی پر 7 گولیاں لگی ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ کاش پولیس انکل نہ آتے تو گندے انکل ہمیں صرف لوٹ کر چلے جاتے۔
اتنی گھومتی ہوئی آئی یہ گولی، لگتا ہے اس کا مقصد ہی مجھے آزادی دلانا تھا۔ پھر میری روح قفص عنصری سے پرواز کرگئی لیکن ڈاکٹر نے ماما بابا کو نہیں بتایا اور دوسرے ہسپتال بھجوادیا۔میں اب بول تو نہیں سکتی تھی لیکن دیکھ سکتی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا میں اب کبھی انایہ سے کھیل نہیں پاؤں گی۔ ماما کی خوشبو اور بابا کی گود بھی نہیں ہوگی۔میں تو ابھی صرف دس سال کی تھی، مجھے ڈاکٹر بننا تھا اور پاکستان میں ترقی اور خوشحالی دیکھنی تھی۔ اپنی دوستوں کے ساتھ اسکول جا کر کھیلنا بھی تھا۔ پھرمیرے بابا بڑی مشکل سے مجھے دوسرے ہسپتال لے گئے اور وہاں کے ڈاکٹرز نے کہا کہ میں مرچکی ہوں۔ اس وقت ماما اور بابا کی شکلیں دیکھنے والی تھیں، ماما تو پھوٹ پھوٹ کر روپڑیں۔اب کیا ہوسکتا ہے ماما میں تو اس نظام کے ہاتھوں ہر قسم کے غم سے آزاد ہوچکی ہوں۔ آپ ہی تو کہتی تھیں، اللہ میری بیٹی کو کوئی تکلیف نہ دے اور ڈھیروں خوشیاں عطا کرے۔ ماما میں آزاد ہوچکی ہوں لیکن ایک سوال پوچھنا تھا آپ سے کہ ملک کے لیےلڑنے والے غازی اور شہید کہلاتے ہیں۔میں تو بالکل معصوم تھی ،کیا میں بھی شہید ہوں۔ماما میں یہاں بہت خوش ہوں۔ اب خوابوں کے ٹوٹنے کا کوئی ڈر نہیں اور مجھے یہاں کچھ برا محسوس نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے ماما کہ شاید مجھے جنت مل چکی ہے۔