طلب میں اضافہ یا بے جا منافع، اسلام آباد کی پولٹری مارکیٹ میں چھوٹی مرغیوں کی فروخت کا انکشاف
طلب میں اضافہ یا بے جا منافع، اسلام آباد کی پولٹری مارکیٹ میں چھوٹی مرغیوں کی فروخت کا انکشاف
پیر 24 مارچ 2025 15:30
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
جی نائن میں پولٹری شاپ کے مالک شاہد محمود کے مطابق ’پولٹری فارمز ہی سب کچھ کنٹرول کر رہے ہیں۔‘ فائل فوٹو: اے پی پی
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آغاز کے ساتھ ہی افطار پارٹیوں کا رجحان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اشیائے خورد ونوش بالخصوص چکن کے استعمال میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
مہنگائی کے باوجود رواں ماہ چکن کی ریکارڈ سیل ہوئی ہے۔ اور اب مارکیٹ میں برائلر مرغی کی کمی دکھائی دے رہی ہے۔
بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے کچھ تاجروں نے چھوٹی برائلر مرغی مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے گوشت کا معیار اور صارفین کی صحت دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں اسلام آباد میں مرغی کی قیمتیں تیزی سے بڑھی ہیں۔ زندہ مرغی اس وقت تقریباً 460 سے 550 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے، جبکہ مرغی کا گوشت 800 روپے سے 880 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔
پچھلے مہینوں میں زندہ مرغی کی قیمت 485 روپے فی کلو کے قریب تھی، جبکہ سرکاری نرخ 412 روپے فی کلو مقرر کیا گیا تھا۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ خود مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں اس لیے انہیں بھی زیادہ نرخوں پر فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ آبپارہ مارکیٹ کے ایک دکاندار عبد الوحید کا کہنا تھا کہ ’ہمیں سپلائرز ہی مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں، ہمارے پاس بھی قیمتیں بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لوگ ہم سے بحث کرتے ہیں لیکن ہم خود بھی پریشان ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’رمضان سے قبل پنجاب حکومت نے مرغی کی قیمت 385 روپے فکس کر دی اور صوبے سے باہر مرغی کی سپلائی بھی روک دی تاکہ پنجاب میں قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔ قیمتیں بھی کنٹرول نہ ہوئیں اور اسلام آباد میں بڑھتی طلب کے باعث قیمت بھی بڑھی اور مقامی مرغی فارمز کے مالکان نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوزائیدہ مرغی مارکیٹ میں بھجوا دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب ہم مرغی کاٹ رہے ہوتے ہیں تو چھوٹی مرغی کے گوشت کا رنگ ہی مکمل مرغی کے گوشت سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے بعض اعضا جن میں بالخصوص پوٹہ اور کلیجی اچھی حالت میں نہیں ہوتے۔ گاہک بھی شکایت کرتے ہیں۔‘
عام طور پر ایک برائلر چکن مارکیٹ میں آنے سے پہلے 30 سے 35 دن کا ہوتا ہے جبکہ کچھ اس سے زیادہ دنوں کے ہوتے ہیں جن کا وزن دو سے اڑھائی کلو تک بھی ہوتا ہے۔
ایک دکاندار شاہد محمود نے بتایا کہ ’جب بڑے تاجروں نے دیکھا کہ بڑی مرغیاں فروخت نہیں ہو رہیں تو انھوں نے چھوٹی مرغی مارکیٹ میں بھجوا دی ہے۔ اب وہ تول کے حساب سے تو سب کی پہنچ میں ہے لیکن ہمیں پتہ ہے کہ اس کا گوشت معیاری نہیں۔‘
دکانداروں کا کہنا ہے کہ پولٹری فارم مالکان اس صورتحال کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
دوسری جانب کچھ صارفین نے بھی اس فرق کو محسوس کیا ہے اور گوشت کے سائز اور ساخت پر شکایت کی ہے۔
جی نائن مارکیٹ میں خریداری کرنے والی ایک خاتون آمنہ بی بی نے کہا کہ ’مرغی کا گوشت پہلے جیسا نہیں رہا۔ یہ چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں گوشت کم ہوتا ہے۔ ہم نے پہلے کبھی اتنی کمزور اور چھوٹا چکن نہیں دیکھا۔ قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، اور اب معیار بھی نہیں مل رہا۔‘
دکانداروں کا کہنا ہے کہ پولٹری فارم مالکان اس صورتحال کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
جی نائن میں پولٹری شاپ کے مالک شاہد محمود کا کہنا تھا کہ ’پولٹری فارمز ہی سب کچھ کنٹرول کر رہے ہیں۔ وہ کم سٹاک ریلیز کرتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں کمی محسوس ہو اور قیمتیں بڑھ سکیں۔ ہم تو صرف ان کے دیے ہوئے ریٹ پر چل رہے ہیں۔‘
ادھر ضلعی انتظامیہ کا موقف ہے کہ پولٹری کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور معیار کو یقینی بنانے میں درپیش چیلنجز کو تسلیم کرتے ہیں۔ مارکیٹ کی صورتحال کو قریب سے مانیٹر کرنے اور سپلائی کے مسائل حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔