اسد عمر،نواز شریف کی معاشی پالیسیاں اپنانے پر مجبور؟
کراچی(صلاح الدین حیدر) پاکستان کی معیشت وزیر اعظم عمران خان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک مشکلات کا شکار ہے، ایک طرف تو جنوبی صوبہ سندھ جو کراچی کو ساتھ ملانے کے بعد دولت سے مالا مال اور جہاں ، پیسوں کی ریل پیل روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، وہیں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اکثر معاشی اقدامات کو اپنانے پر مجبور نظر آنے لگے ہیں۔آج بھی کسانوں پر ظلم وستم کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے، اس جدید دنیا میں جہاں غلامی کے طوق تین چوتھائی خطے زمین سے غائب ہو چکے اور کردئےے گئے ہوں، وہاں سندھ میں کسان جسے قومی زبان میں ہاری کہتے ہیں۔غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا نظر آتاہے۔ اس کی مجال نہیں ہے کہ وہ اپنے زمیندار ، جو عر ف عام میں وڈیرا کے نام سے پکارے جانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ذاتی غلام ہیں، ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام تو کیا ان کے سامنے سر بھی نہیں اٹھا سکتے۔جہاں ےہ عالم ہو وہاں ایک زرعی معیشت جس میں کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،اسے پاﺅں کے تلے دبا کر رکھنا ماضی بعید کے شہنشاہوں کی یاد دلاتاہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سندھ سے منتخب ہونے والے بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے نمائندے وڈیرا شاہی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے نزدیک ملک کو سنوار نا ثانوی حیثیت رکھتاہے۔ پہلے اپنی تجوریاں بھرنا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، ظاہر ہے کہ پارلیمان میں ایسے نمائندے ملک کی بحالی کی بجائے زہرقاتل ہی کا کردار ادا کرنے میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔ ےہ مشاہدہ ہم روز ہی دیکھتے ہیں۔ سندھ کرایہ داری ایکٹ جو ہاری لیڈر حیدر بخش جتوئی کی مرہون منت ہے۔کسانوں کو آزادی دلانے کےلئے بنایا گیا تھا لیکن آج بھی کوئی کسان سندھ میں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کا سرکچل دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جو 1970سے 5 مرتبہ صوبے میں برسراقتدار رہی ہے، نے 2013 میں اس قانون میں ترمیم کر کے یہ بات ثابت کردی کہ سندھ میں کسان صرف اور صرف غلام ہے اور کچھ نہیں۔کھیتوں میں کام کرنے والے ہاری ایک طرح سے اب اور زیادہ وڈیروں کے ذاتی ملازم بن چکے ہیں۔ لیبر لیڈر کرامت علی نے ا س ترمیم کی سخت مذمت کرتے ہوئے صاف طور پر کہہ دیا کہ وڈیرے سندھ میں مزدور اور کسان کو”بے گار “ یعنی مفت کے ملازم سمجھتے ہیں،ایسے میں معیشت کیا خاک ابھرنے پائے گی، کپاس ، چاول، بھٹا، گنا، مرچ، ٹماٹر، سبزی وغیرہ، کیلا سب کچھ سندھ میں بہت بڑ ی مقدار میں اگتاہے، لیکن اس کی آمدنی وڈیروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ بےچار ہ کسان محض آسمان کی طرف دیکھنے اور اللہ سے خیر کی دعا مانگنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتا۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لینڈ ریفارمز کرکے وڈیروں کو اپنی ہاریوں کو بیج ، کھاد اور پانی دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا ۔ ان کے ہوتے ہوئے اور موت کے بعد تو خود ان کی پارٹی نے سب کچھ بھلا دیا ۔ بینک ، صنعت و حرفت کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں تو وہاں بھی کوئی خاص تبدےلی نہیں نظر آتی۔ اسد عمر کے لئے معیشت ایک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا ۔ ان کے اقدامات سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ بلک منی کو شاید تحفظ دینے پر مجبور ہوجائیں۔حکومت اپنے وعدوں سے پھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ابھی تک صرف پیٹرول کی قیمتوں میں سیلز ٹیکس کی کمی واحد اچھی خبر ہے، ورنہ بہت کچھ کہتے نظر آتے ہیں۔ عام خیال کیا جاتاہے اسد عمر بجٹ کے آخرمیں اپنی تقریر جو کہ بجٹ پر ہونے والی بحث کو سمیٹنے کا خلاصہ ہے۔ شاید بہت ساری پرانی حکومت کی پالیسیوں کو اپنا لیں۔ دنیا کیا کہے گی، یہ وہی بتاسکتے ہیں، کئی ایک کار بنانے والی بڑی فیکٹریوں اور عمارتیں بنانے بنانے والے بلڈرز نواز شریف کی وجہ سے خاصی تکلیف میں نظر آتے تھے۔ اس جدو جہد میں لگے رہتے تھے کہ ان پر لگائی گئیں پابندیاں اٹھا لی جائیں۔ اب اگر کہیں وہ پابندیاں اسد عمر نے اٹھا لیں تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ عوام میں پی ٹی آئی مقبولیت ختم ہونا شروع ہوجائے گی۔ جس کا مظاہرہ شاید 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں رونما ہو۔ کوئی مانے یا نا مانے مگرحقیقت ےہی ہے کہ ناجائز طور سے کمائی ہوئی دولت ہی پاکستانی معیشت کو سہارا دیئے ہوئی تھی۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جو اقدامات کئے تھے کہ ٹیکس نا دینے والوں پر نئی یا پرانی گاڑیاں اور 50لاکھ سے اوپر جائیداد خریدنے کی ممانعت ہوگی ، اسے واپس لے لیا گیا ہے۔ تنقید اس قدر شدید ہے کہ شاید اسد عمر اپنے ہی اقدامات کو واپس لینے پر مجبور ہوجائیں تو پھر آئندہ کیا ہوگا۔پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہوگی؟ یہ سوال ہر شخص پوچھ رہاہے۔