پاکستان کے عدالتی نظام سے متعلق اکثر دلچسپ خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ کہیں کوئی فیصلہ سزا پوری ہونے کے بعد سنایا گیا تو کہیں اس کے فیصلے کی باری ہی مرنے کے بعد آئی۔
لیکن لاہور میں اس وقت پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو ایک نئی مصیبت کا سامنا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں کئی افراد ضمانت کروانے کے بعد غائب ہو چکے ہیں اور ٹرائل کا سامنا نہیں کر رہے۔
عام طور پر کسی ملزم کی ضمانت کوئی دوسرا شہری دیتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو فی الحال رہا کیا جائے اگر یہ عدالت میں مقدمے کا سامنا نہیں کرے گا تو اس کی باز پرس ضمانت دینے والے شخص سے ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
نو مئی کے واقعات میں ملوث 25 ملزمان کو سزائیں: آئی ایس پی آرNode ID: 883287
-
فوجی عدالتوں نے نو مئی کے مقدمات میں مزید 60 افراد کو سزا سنا دیNode ID: 883514
17 جنوری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں صورت حال اس وقت دلچسپ ہوئی جب ایک ملزم کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر اس کے ضمانتی کو طلب کر رکھا تھا لیکن وہ بھی حاضر نہ ہوا۔
جب عدالت نے پولیس اور پراسیکیوشن سے اس بابت استفسار کیا تو پولیس نے عدالت کے روبرو ایک رپورٹ رکھی جس میں بتایا گیا کہ محمد علی نامی شہری نے لگ بھگ تین سو افراد کی ضمانتیں کروائی ہیں جو کہ بنیادی طور پر جعلی ضمانتیں ہیں۔
عدالت نے رپورٹ کے بعد حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو اس شخص کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی اور ریمارکس دیے کہ ’جس شخص کی ضمانت دی گئی وہ تو اس سے بڑا ملزم ہے۔ اس کو پکڑ کر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔‘
اسی عدالت میں ایک نعمان نامی ضمانتی نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ انہوں نے سرے سے کسی کی ضمانت دی ہی نہیں تھی۔ ان کا شناختی کارڈ اور رجسٹری کی کاپی کا غلط استعمال ہوا ہے۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس شہری کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
عدالتوں میں جعلی ضمانتیں دینے کا کلچر پرانا ہے۔ تاہم اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر اتنے اہم کیسز میں جعلی ضمانتوں کا استعمال حیران کن ہے۔
پراسیکیورٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے اس موضوع پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے بار کی مدد کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر ایسے کاموں میں وکلا بھی ملوث ہوتے ہیں۔ جو کرائے پر ضمانتی لے آتے ہیں۔ لیکن اب سارا جوڈیشل سسٹم آٹومیشن کی طرف جا رہا ہے، ہم اے آئی کو بھی سسٹم میں لا رہے ہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہر چیز آن لائن ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ایسے افراد پھر فراڈ نہیں کر سکتے۔ جب عدالت کی کارروائی مکمل طور پر ڈیجیٹل ہو جائے گی تو ملزمان، مدعیان، گواہان اور ضمانتیوں کا ریکارڈ بھی اسی مناسبت سے کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا تو پھر اس طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ابھی تو صرف مینجمنٹ سسٹم آن لائن ہوا ہے۔ باقی کافی کچھ ابھی مینوئل چل رہا ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
موجودہ کیسز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ پولیس کے ساتھ مل کر ان افراد کا سراغ لگائے جنہوں نے جعلی ضمانتیں دیں اور انہیں گرفتار کر کے ان کے خلاف جعل سازی کے مقدمے درج کیے جائیں گے۔