یمن کی جنگ ... ناگزیر آفت
ڈاکٹر احمد بن عثمان التویجری
آخری قسط
فریق ثانی کے یہاں اصول پسندی کا فقدان ہے۔ یہ فریق جی سی سی ممالک خصوصاً سعودی عرب کے اگلے پچھلے ہر کردار کو نظر انداز کئے ہوئے ہے۔ جی سی سی اور مملکت نے یمن کی آئینی حکومت کی بحالی کیلئے اتحاد کے قیام اور یمنی جنگ چھڑنے سے قبل یمن کے متحارب فریقو ںکو جوڑنے کے لئے بہت کچھ کیا۔ یمنیوں کو قدرِ مشترک پر متحد و متفق کرنے کےلئے بڑے جتن کئے۔ اسے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ناانصافی ہوگی اگراس کے بالمقابل حوثیوں کی کارستانی سے چشم پوشی برتی جائے۔ انہوں نے خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کی جانب سے یمنیوں کو جوڑنے کیلئے جو پرامن مشن چلایا ، حوثیوں نے اس کے پرخچے اڑا دیئے۔ حوثیوں نے عہد شکنی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ یمن میں امن اور ہم آہنگی کی بحالی کی ہر کوشش میں روڑے اٹکائے۔ یمن اور پڑوسیوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے ہر عمل کو سبوتاژ کیا۔
ہوش مند افراد اس سچائی سے بخوبی واقف ہیں کہ حوثیوں نے خلیجی ممالک خصوصاً سعودی عرب کو گھیرنے والے ہر ایرانی منصوبے کو نہ صرف یہ کہ نافذ کیا بلکہ اب بھی وہ اسی پر عمل پیرا ہیں۔ ایران کا بڑا ہدف مکہ مکرمہ میں مقامات مقدسہ پر قبضہ کرنا تھا اور ہے۔ یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں۔ ایران کے مذہبی رہنما اس کا کھل کر اظہار کرچکے ہیں۔ ایرانی نظام کے بعض اتحادی خصوصاً حسن نصر اللہ کھل کر اس قسم کی باتیں کرچکے ہیں۔ 2018ءکے جولائی کے آخر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کردہ خفیہ رپورٹ میں یہ بات تحریر ہے کہ ماہرین کی کمیٹی اس نتیجے تک پہنچی ہے کہ ایران ہی نے بیلسٹک میزائل ، ڈرون اور مختلف ہتھیار یمن کو بھجوائے۔ یہ کام 2015ءکے دوران ایران کے لئے اسلحہ کی پابندی کے بعد کیا گیا۔ 125صفحات پر مشتمل رپورٹ میں جسے اے ایف پی نے جاری کیا اور پھر لندن کے جریدے ایلاف نے 31جولائی 2018ءکو اسے شائع کیا، اس میں بتایاگیا ہے کہ یمن میں اڑائے جانے والے ڈرون اور بیلسٹک میزائل ایرانی ساختہ ڈرون اور میزائل سسٹم سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ عالمی ماہرین کی کمیٹی کے ارکان نے 10میزائلوں کے ملبے کا معائنہ کرکے بتایا کہ میزائلوں اور ڈرون پرموجود تحریروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایرانی ساختہ تھے۔ ان سب سے اہم یہ ہے کہ اس بات کے ٹھوس اور باتصویر ثبوت مل چکے ہیں کہ لبنانی حزب اللہ حوثیوں کو ٹریننگ دینے کیلئے عسکری ماہرین یمن بھیج رہی ہے۔ اس نے حوثیوں کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لینے کیلئے ا پنے جنگجو بھی بھیجے ہیں۔ 24فروری 2016ءکو جاری کردہ وڈیو سے پتہ چلا ہے کہ حزب اللہ کے 3ماہرین حوثیوں کے جنگجوﺅں کی نئی کھیپ تیار ہونے پر تقریب تقسیم اسناد کی نگرانی کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ مذکورہ تربیتی کورس ایک بڑے پروگرام کا معمولی سا حصہ تھا جسے حزب اللہ ، یمن میں حوثیوں کیلئے روبعمل لارہی ہے۔ علاوہ ازیں یمن میں جنگی محاذوں پر لبنانی حزب اللہ کے متعدد جنگجو اور ایران کے کئی عسکری ماہرین کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے عرب اتحاد کی مداخلت سے قبل حوثیوں کے ہزاروں جرائم ریکارڈ کئے۔ یہ جرائم انسانیت سوز جنگی جرائم کے درجے کے ہیں۔ شہری رجحانات کی علمبردار تنظیم ”وثاق“ نے ایک رپورٹ جاری کرکے بتایا ہے کہ حوثیوں نے جولائی 2004سے لیکر فروری 2010ءتک صعدہ میں 9039، حجہ 4866 انسانی حقوق کی خلا ف ورزیاں کیں۔ یہ یمن میں عرب اتحاد کی مداخلت سے کافی پہلے کی باتیں ہیں۔ دوسری جانب حوثیوں نے سعود ی عرب کے سرحدی علاقوں پر کئی بار جارحانہ حملے کئے۔ یہ حملے بھی جنگ چھڑنے سے قبل کے ہیں۔ یہ سب بین الاقوامی قوانین کے سراسر منافی تھے۔ فطری امر تھا کہ سعود ی عرب اور اسکے ساتھ اسکے اتحادی حوثیوں کے جرائم اور حملوں کے خلاف اقدام کریں۔ خاص طور پر یمن کی آئینی حکومت کی درخواست کے بعدیہ کارروائی ناگزیر ہوگئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک کی مداخلت بین الاقوامی قوانین کے بموجب جائز تھی۔ یمن اور پڑوسی ممالک کے اعلیٰ مفادات کے تحفظ کیلئے بھی یہ اقدام ناگزیر تھا۔ انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں ماہرین کے مباحثے میں یہ امر توجہ طلب تھا کہ شرکاءبین الاقوامی معاہدوں اور قوانین میں مقرر جنگی جرائم اور جنگی کارروائی کے دوران بلا ارادہ پہنچنے والے ثانوی درجے کے نقصانات میں فرق نہیں کررہے تھے۔ اسی تناظر میں وہ عرب اتحاد خصوصاً سعودی عرب اور امارات پر یمن میں انسانیت سوز جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات لگا رہے تھے۔ ان لوگوں کو اس موقع پر بین الاقوامی فوجداری کی عدالت کے سابق پبلک پراسیکیوٹر لوئس مورینو اوکامبو کا وہ بیان بتایا جانا ضروری ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بین الاقوامی انسانی قانون اور روم کے بنیادی قانون کے بموجب جنگ کے دوران شہریوں کی موت افسوسناک ہونے کے باوجود جنگی جرم کے دائرے میں نہیں آتی ۔ بین الاقوامی انسانی قانون فوجیوں کو عسکری اہداف کے خلاف موزوں حملے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جنگی جرم اس وقت مانا جائیگا جب جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا جائے یا عسکری ٹھکانے پر اس علم کے باوجود حملہ کیا جائے کہ ایسا کرنے سے شہری بڑے پیمانے پر متاثر ہونگے۔
اس تناظر میں اتحادی افواج کے حملوں سے ہونے والے بلا ارادہ جانی نقصانات اور جنگی جرائم کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ ہر لحاظ سے ایک برائی ہے۔ جنگِ یمن بہت بڑی برائی تھی اور ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ یہ انتہائی ضروری تھی۔ یمن اور اسکے قدرتی وسائل کو بچانے ، یمن کی آئندہ نسلوںکے مستقبل کے تحفظ،پڑوسی ممالک کے امن و استحکام کے دفاع کیلئے ناگزیر تھی۔ چھوٹی برائی بڑی برائی سے بچنے کیلئے جائز ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت بھی اسکی اجازت دیتی ہے۔ عالمی رائے عامہ کو ان سارے حقائق سے آگاہ کرنا از بس ضروری ہے۔
(مصنف عالمی تنظیم عدالت کے سربراہ ،انسانی حقوق اور آئینی امو رکے ماہر وکیل ہیں)
٭٭٭٭٭٭٭٭