Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن کی جنگ ...ناگزیر آفت

ڈاکٹر احمد بن عثمان التویجری 
قسط اول
انسانی حقوق کونسل کا 39واں سیشن سوئٹزرلینڈ کے خوبصورت ترین شہر جنیوا میں منعقد ہورہا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبردار اور اسکالرز کثیر تعداد میں جمع تھے۔ گفتگو کا موضوع یمن کی جنگ بنا ہوا تھا۔ شرکاءکے سامنے ایک سوال تھا کہ کیا یمن کی جنگ کا کوئی جواز ہے یا یہ کوئی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرکے لڑی جارہی ہے۔ کیا یہ پرخطر مہم جوئی نہیں جس میں نہ پڑنا ہی حکمت کے عین مطابق تھا؟ 
مکالمے میں شریک بیشتر افراد کا موقف یہ تھا کہ یمن کی جنگ غلط ہوئی اس سے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو خاص طور پر بھاری نقصان پہنچا۔ اس جنگ کے باعث نہ جانے کتنے افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ گھر سے بے گھر ہوئے فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔ امراض میں مبتلا ہوئے۔ انسانی بنیادوں پر یہ جنگ نہیں ہونی چاہئے تھے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر باضمیر انسان کسی بھی انسانی مصیبت کو برداشت نہیں کرپاتا ہر وہ مصیبت جس سے بچا جاسکتا ہو اس سے بچنا ہی صاحب ضمیر انسان کا شیوہ ہوتا ہے۔ کوئی شخص بھی بنیادی طور پر تنازعات کے حل کیلئے جنگ کے حق میں نہیں مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ زندگی کی تلخیاں کچھ اور ہیں۔ بعض اوقات جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مناسب وقت پر جنگ نہ کرنے سے بھاری نقصان بلکہ خطرناک المیے جنم لیتے ہیں۔ یہ المیے جنگ کے نتیجے میں انسانوں کو پہنچنے والے نقصانات اور مصائب سے کم بہت کم ہوتے ہیں۔
توجہ طلب امر یہ تھا کہ مذکورہ مکالمے میں حصہ لینے والے بیشتر افراد کو یمن کی کشمکش کا پس منظر معلوم نہیں تھا۔ انہیں اس کا کوئی علم نہیں تھا کہ ”انصار اللہ “ حوثیوں نے یمن میں کیا کچھ کیا۔ انہوں نے کس قسم کے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا۔ ا نہوں نے یمن کی آئینی حکومت کی مدد کیلئے عرب اتحاد کی مداخلت سے قبل یمنی عوام کیساتھ کیسا سلوک روا رکھا۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ایرانی نظام سے حوثیوں کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ گزشتہ 20برس کے دوران انصار اللہ سے وابستہ افراد کے افکار اور عقائد میں کس قسم کی تبدیلیاں برپا ہوئیں۔ توجہ طلب امر یہ بھی تھا کہ مذکورہ مکالمے میں شریک بیشتر افراد یمن میں ایرانی مداخلت کے اسٹراٹیجک اثرات اور جغرافیائی و سیاسی نتائج سے لاعلم تھے۔ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ یمن کی جنگ کا خطے پر تسلط کے حوالے سے ایرانی منصوبے کا کیا رشتہ ہے۔ ایرانی ،خطے کو قابو کرنے کیلئے حوثیوں کو کس طرح سے استعمال کررہے ہیں۔یمن کے 15سالہ حالات کے اصولی تجزیے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ تجزیہ نگار اس حقیقت کو مدنظر رکھیں کہ انصار اللہ نام کا حوثی گروہ مقامی یمنی جماعت کے دائرے سے نکل کر ایران کے توسیع پسندانہ منصوبہ نافذ کرنے والے گروپ میں تبدیل ہوگیا۔ مشکل یہ ہوئی کہ اس گروہ کے تمام افراد یمن کے شہری ہیں۔ یہ سب کے سب دیکھتے ہی دیکھتے ایک مسلح گروہ کا رکن بن گئے۔ اس گروہ نے ایران کے اہداف حاصل کرنے کیلئے جائز ناجائز ہر قسم کے کام کئے۔ جتنے جرائم بھی کرسکتے تھے کئے۔ ناگہانی قتل، یمن کے قومی رہنماﺅں کو منظر نامے سے زبردستی ہٹانا، لوٹ مار، کوئی کام ایسا نہیں جو نہ کیا گیا ہو۔ آبادی سے بھرپورعلاقوں پر اندھا دھند گولہ باری ، آئینی حکومت سے مکمل بغاوت ، منتخب حکام کا تختہ الٹنا ۔ یہ سارے کام اس مسلح گروہ نے انجام دیئے۔جنگ کیوں ہوئی اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے انصاف پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ حوثیوں کے نظریات میں خوفناک تبدیلی کب اور کیونکر واقع ہوئی۔ ہوا یہ کہ ایران نے یمن میں ثقافتی یلغار کرکے انصار اللہ کو زیدی فرقے کے اعتدال پسند عقائد سے محروم کردیا اور انہیں انتہا پسندانہ اثناعشری ایرانی عقائد کا علمبردار بنادیا۔ اثناعشری فرقے کا عقیدہ ہے کہ جو لوگ اثناعشری فرقے کے عقائد کو تسلیم نہ کرتے ہوں وہ مسلمان نہیں۔ انکی عزت ، آبرو اور دولت محترم نہیں۔ اسی عقیدے کے باعث حوثیوں نے اپنے گروہ سے خارج افراد کی خونریزی ، آبروریزی اور لوٹ مار کی ۔ یہ صحیح ہے کہ حوثیوں میں شامل تمام افراد اس قسم کے خطرناک عقائد سے متفق نہیں تھے۔ ان میں سب کے سب قم میں ولایت فقیہ کے تسلط کے قائل نہیں تھے بلکہ ان میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو ایرانی تسلط کے مخالف ہیں۔ اسکا نمایاں ترین ثبوت ذمارصوبے کے زیدی قریئے (الحضر) میں پیش آنے والا وہ تاریخی واقعہ ہے جہاں کے زیدی باشندوں نے انصار اللہ جماعت کے نعرے اپنانے سے انکار کردیا۔ انکا کہناہے کہ انصار اللہ ایران کے انتہا پسندانہ افکار طوطوں کی طرح دہرا رہے ہیں۔ الحضر قریے کے باشندوں کے اس رویئے پر حوثیو ںنے انکی ناکہ بندی کرلی۔یہ سب کے سب زیدی تھے۔ اسکے باوجود ان سے جنگ کی گئی۔ حوثیوں کے فکری انحراف کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں محمد عبدالعظیم الحوثی بھی تھے ۔ یہ زیدی فرقے کے معتبر علماءمیں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2012 ءکے اواخر میں یمن کے سرکاری اخبار الجمہوریہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”انصار اللہ جماعت کے ساتھ انکا اختلاف ہے، اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ زیدی فرقے کا استحصال کرکے اقتدار پر قبضہ کررہے ہیں۔ یہ لوگ اس لائق نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے۔ یہ فاسق ، فاجر اور مجرم ہیں۔ یہ باغی ہیں۔ یہ دین اسلام کے خلاف جارحانہ اقدامات کررہے ہیں۔ انہوں نے عموماً زیدی فرقے اور خصوصاً اہل بیت کے تقدس کو پامال کیا ہے“۔ محمد عبدالعظیم الحوثی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں جسے یو ٹیوب پر پیش کیاگیا یہ بھی کہا ” یہ کافر، منافق اور جھوٹے ہیں، زیدی فرقہ ان کے گندے عقائد سے بری الذمہ ہے“۔
( مصنف عالمی تنظیم عدالت کے سربراہ ،انسانی حقوق اور آئینی امو رکے ماہر وکیل ہیں) 
(باقی آئندہ)
 

شیئر: