بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے چھتیس گڑھ کے بعد راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کی مہم کو جھٹکا لگا ہے۔ کیونکہ پچھلے دنوں کرناٹک میں جنتادل (سیکولر )اور کانگریس کی مخلوط حکومت کی حلف برداری کے دوران بی جے پی مخالف تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کا ایک اسٹیج پر آنا ایک فال نیک تصور کیاجارہا تھا۔ اس اسٹیج پر دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مایاوتی بھی موجود تھیں۔خیال کیاجارہا تھا کہ آنے والے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں مایاوتی بھی اپوزیشن کا ساتھ دیں گی اور اس کا خوشگوار آغاز چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات سے ہوگا لیکن مایاوتی نے یہاں اپنی الگ راہ بنانے کا اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حالانکہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں بہوجن سماج پارٹی کا کوئی مضبوط ووٹ بینک نہیں ہے ۔ لیکن وہ دلت ووٹوں کے سہارے اپنی مضبوط دعویداری پیش کررہی تھیں۔ مایاوتی کانگریس پر اس بات کے لئے دباؤ ڈال رہی تھیں کہ وہ ان کی پارٹی کے لئے دونوں صوبوں میں چالیس پچاس سیٹیں چھوڑے جبکہ کانگریس انہیں دس بیس سیٹوں سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھی۔ مایاوتی نے راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سے اتحاد نہ ہونے کے لئے سینئر کانگریسی لیڈر دگوجے سنگھ کو قصوروار قرار دیا ہے ، جنہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران کہاتھا کہ چھتیس گڑھ میں بی ایس پی اور کانگریس میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ مایاوتی پر سی بی آئی کا دباؤ ہے۔ دگوجے سنگھ کے اس بیان سے چراغ پا مایاوتی نے کانگریس پر بی ایس پی کو برباد کرنے کی سازش کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ کانگریس کا رویہ بی جے پی کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کو ہرانے کا ہے۔ مایاوتی نے کہاکہ’’ کانگریس صدر راہل گاندھی اور سرپرست سونیاگاندھی تو دل سے اتحاد چاہتے ہیں لیکن دگوجے سنگھ جیسے کچھ خود غرض لیڈر سی بی آئی اور ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) جیسی ایجنسیوں سے خوف زدہ ہوکر کسی بھی قیمت پر کانگریس اور بی ایس پی کا سمجھوتہ نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ ‘‘ سی بی آئی اور ای ڈی کے تعلق سے دگوجے سنگھ نے جو کچھ کہاہے وہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ حکمراں جماعت مایاوتی کو اپوزیشن کا حصہ بننے سے روکنے کیلئے مذکورہ ایجنسیوں کے ذریعہ مایاوتی پر دباؤ ڈال رہی ہے کیونکہ بدعنوانی کے بعض معاملات میں سی بی آئی اور ای ڈی مایاوتی اور ان کے بعض اہل خانہ کے خلاف تحقیقات کررہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات عام طورپر کہی جاتی ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو خاموش کرنے یا انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لئے حکمراں جماعت سرکاری ایجنسیوں کو بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات کا سوال ہے تو وہاں مایاوتی کا اپوزیشن اتحاد سے علیحدہ ہوکر چناؤ لڑنا بہت زیادہ معنی نہیں رکھتا کیونکہ ان ریاستوں میں بی ایس پی کا زیادہ اثر نہیں ہے۔ وہ ان ریاستوں میں دلت ووٹوں پر انحصار کررہی ہے جن کے بارے میں مایاوتی کا خیال ہے کہ وہ بی ایس پی کو ہی ملتے ہیں لیکن گزشتہ عام انتخابات اور اس کے بعد یوپی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ دلت ووٹوں پر مایاوتی کی گرفت کمزور پڑچکی ہے کیونکہ 2014کے عام انتخابات میں اترپردیش سے بہوجن سماج پارٹی کو لوک سبھا کی ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی تھی۔ اس کے بعد 2017کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بھی مایاوتی کی کمزور سیاسی حالت پر مہر لگائی تاہم پچھلے دنوں اترپردیش کے گورکھپور ، پھول پور او رکیرانہ کے ضمنی چناؤ کے دوران یوپی میں جس طرح اپوزیشن نے بی جے پی امیدوار کے خلاف اپنا مشترکہ امیدوار میدان میں اتارکر زبردست کامیابی حاصل کی اس سے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ یہاں مایاوتی نے اپنا امیدوار اتارنے کی بجائے اپوزیشن اتحاد کی حمایت کی تھی۔ ان ضمنی انتخابات کے نتائج نے یہ پیغام دیا کہ اگر اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی ایک ساتھ چناؤ لڑیں تو وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست میں بی جے پی کو دھول چٹاسکتی ہیں۔ اس اتحاد میں کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کی شمولیت سے کامیابی کے امکانات مزید روشن ہوسکتے ہیں۔ دراصل یہی وہ ممکنہ اتحاد تھا جس نے بی جے پی کے خیموں میں کھلبلی مچادی کیونکہ یہ اترپردیش ہی تھا جہاں سے بی جے پی کو 80لوک سبھا سیٹوں میں سے 72سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اپنی ممکنہ شکست کو نوشتہ دیوار دیکھ کر بی جے پی نے اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کے لئے بساط بچھا نا شروع کردی۔ کہاجاتا ہے کہ مایاوتی کے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کا استعمال کرکے بی جے پی انہیں اپوزیشن اتحاد سے علیحدہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ مایاوتی نے اترپردیش میں سماجوادی پارٹی سے اتحاد نہ کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے لیکن وہ ایک سے زائد بار یہ کہہ چکی ہیں کہ وہ اترپردیش میں باعزت طریقے سے اتحاد کریں گی اور اگر انہیں مطلوبہ سیٹیں نہیں ملیں تو وہ اکیلے ہی چناؤ کے میدان میں اتریں گی۔ اُدھر بی جے پی نے سماجوادی پارٹی میں نقب لگانے کے لئے اکھلیش یادو کے ناراض چچا شیوپال یادو کے سرپر ہاتھ رکھ دیا ہے اور انہوں نے سیکولر سماج وادی مورچہ تشکیل دے کر اترپردیش کی تمام لوک سبھا سیٹوں پر چناؤ لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش اسمبلی چناؤ کے لئے اپنی علیحدہ راہ بنانے والی مایاوتی آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئے کیا حکمت عملی وضع کرتی ہیں۔ یوں بھی مایاوتی پر بہت زیادہ بھروسہ کرنا دانش مندی کے خلاف ہے کیونکہ وہ بہت جلد اپنا موقف اور اپنی راہ تبدیل کرلیتی ہیں۔