رابطہ عالم اسلامی اعتدال کے فروغ کا علمبردار
اتوار 14 اکتوبر 2018 3:00
***ہادی الیامی۔الوطن ***
رابطہ عالم اسلامی نے کانفرنسوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نئے انداز سے اپنی جدوجہد اغیار کی طرف ان کے اپنے علاقوں میں منتقل کر دی ۔رابطہ عالم اسلامی نے اپنے مذہب کے دفاع اور خود اپنے تعارف پر انحصار نہیں کیا بلکہ اغیار کو اپنی باتیں کہنے کا بھی موقع دیا۔
دانشوروں کے حلقوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ دہشتگردی ایسی آفت ہے جس سے بنی نوع انسان کے تمام معاشرے اپنی تاریخ کے آغاز ہی سے دوچار رہے ہیں ۔ تمام آسمانی اور غیر آسمانی مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف ادوار میں ہر مذہب کے ماننے والوں میں مٹھی بھر لوگ مختلف اسباب کے تحت شدت پسندی اور انتہا پسندی میں ملوث رہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنے غلط طریقہ کار سے اپنے مذہب کی خدمت کر رہے ہیں اور دیگر مذاہب کو کمزورکر رہے ہیں ۔یہ بات اپنی جگہ طے پا چکی ہے کہ اس راہ پر چلنے والے بیشتر لوگ ذاتی مفادات اور نجی اغراض و مقاصد کیلئے کام کرتے رہے ہیں ۔ انہیں ان نعروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جس کا وہ شور کرتے رہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چمکیلے مذہبی دعوئوں کے پردے میں اپنے مفادات حاصل کرنے کا چکر چلاتے رہے ۔
گزشتہ 2عشروں کے دوران دنیا کے بیشتر علاقوں میں وقوع پذیر ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات میں اسلام سے منسوب بعض افراد ملوث پائے گئے ہیں ۔ اس صورتحال نے اسلام سے عداوت رکھنے والوں کو دہشتگردی کا الزام اسلام سے چپکانے کا موقع دیدیا۔ان لوگوں نے دہشتگردی اور دین اسلام کے درمیان گہرا رابطہ اپنے طور پر تخلیق کر دیا۔ہمارے محترم علماء نے دہشتگردی سے اسلام کے رشتے کی نفی کیلئے بہت کچھ کیا تاہم متعدد اسباب کے تحت ان کی یہ محنت رائیگاں گئی ۔ پہلا سبب یہ ہے کہ علماء نے سازش کے نظریہ کے سائبان تلے تردید کی مہم چلائی ۔ انہوں نے شدت پسند مسلمانوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔یہ سچ ہے کہ بعض شدت پسند عناصر ہمارے درمیان موجود ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت کم تعداد میں ہے ۔ ماہرین کا کہنا بھی یہی ہے ۔میں اسلام کا دفاع کرنیوالے مخلص انسانوں کی کوششوں کو سلام کرتا ہوں ۔ ان لوگوں نے بلاشبہ اسلام کی میانہ روی ، رواداری ، پر امن بقائے باہم کے پہلوئوں کو بہت اچھے سے اجاگر کیا ۔ انہوں نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کو پوری قوت سے مسترد کیا مگر ہمارے علماء کی یہ مساعی ثمر بار نہیں ہو سکی ۔ ہم لوگ اپنی زبان میں اپنوں کے درمیان کانفرنسیں منعقد کرکے اپنے بے قصور ہونے کا دعویٰ کرتے رہے جبکہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کے حوالے سے روایتی تصویر اپنی جگہ جوں کی توں قائم رہی ۔
رابطہ عالم اسلامی نے اپنے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد العیسیٰ کی زیر قیادت نیا طریقہ کار اختیار کیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام اغیار کو اختلاف کا حق دیتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام ہر طرح کے جبر کا مخالف ہے ۔ انہوں نے ثابت کیا کہ انتہا پسندی کا رواج بیشک ہمارے درمیان موجود ہے ، اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے انتہا پسندی کے اسباب کے تجزیہ اور اس کا لاوا بھڑکانے والے ذرائع دریافت کرنے کا بھی اہتمام کیا ۔ انہوں نے اسی کے ساتھ ساتھ اسلام فوبیا کے گھنائونے خطرات کی طرف توجہ بھی مبذول کرائی جو مغربی دنیا میں پھیلتا چلا جا رہا ہے جسے انتہا پسند مسلم نوجوان اپنی انتہا پسندی کے جواز کے طور پر پیش کرنے لگے ہیں ۔
رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں کانفرنسوں کے انعقاد پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اغیار کے گڑھ میں پہنچ کر اسلام سے خائف فریقوں کو غور سے سنا اور انہیں اسلامی اعتدال ، میانہ روی اور رواداری سے بھرپور شکل میں آگاہ کیا ۔ اغیار نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں کئی ایوارڈ سے نوازا ۔
رابطہ عالم اسلامی کی مسلسل جدوجہد نے شدت پسند جماعتوں کے غیر ذمہ دارانہ تصرفات سے اٹھنے والے گردوغبار کا مطلع صاف کیا۔بعض مغربی حلقوں نے جو اسلام کی بابت غلط تصورات کو حتمی شکل دئیے ہوئے تھے حقیقت حال دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مکالمے کی اہمیت کو تسلیم کیا ۔
رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر العیسیٰ نے عملی اصلوب اور متوازن اظہار کی بدولت ہر سطح پر سعودی عرب کی حقیقی تصویر اجاگر کی ۔ بیرون دنیا کو سعودی عرب کے اعتدال پسند مزاج سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے واضح کیا کہ سعودی عرب وہ ملک ہے جو دہشتگردی کی آفت سے سب سے زیادہ دوچار ہوا ہے اور وہی ایسا ملک ہے جس نے دہشتگردی کا مقابلہ سب سے زیادہ کیا ۔ سعودی عرب نے اس حوالے سے بہت سے کارنامے انجام دئیے ۔ انسداد دہشتگردی کا اسلامی اتحاد قائم کیا ۔ اپنا تجربہ دوسروں تک پہنچایا ۔ بڑے مغربی ممالک تک کو دہشتگردی کے انسداد میں مدد دی ۔ امن و امان ہی کے حوالے سے نہیں بلکہ دہشتگردانہ افکار سے نمٹنے کیلئے بھی ٹھوس بنیادوں پر کاوشیں کیں اور کر رہا ہے ۔