نفرت انگیز پروپیگنڈے کیخلاف سعودی عرب کا دفاع فرض ہے، امام مسجد نبوی
مکہ مکرمہ/مدینہ منورہ (واس) مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالباری الثبیتی نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب فرزندان اسلام کے شعور اور وجدان میں بسا ہو ا ہے۔ اس کے مقام بلند کو زک پہنچانے والوں کو ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جو بھی اس سے عداوت برتے گا شکست اس کا نصیب بنے گی۔ سعودی عرب اور حرمین شریفین کے امن و امان کے تحفظ نیز مملکت کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کے سدباب اور اس کے اتحاد و سالمیت کیلئے جدوجہد شرعی فریضہ ہے۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام الثبیتی نے توجہ دلائی کہ جب باتیں زیادہ ہوں ، ماحول قیل اور قال کی صداؤں سے بھرجائے تو ایسے عالم میں مسلمانوں کا فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے مشاہدات او رسنائی جانیوالی باتوں کے درمیان توازن پیدا کریں جو کچھ سنیں اور جو کچھ دیکھیں اسے اسلامی شریعت او رذہن و عقل کی میزان سے تولنے کا اہتمام کریں۔ اگر فتنہ انگیز دعوے اور امید افزاء پیغام سامنے پائے تو ایسی صورت میں امید افزا پیغام کو اپنانے کا اہتمام کیا جائے۔ ایسی باتیں جو فتنوں کے در کھولتی ہوں، بدامنی پھیلاتی ہوں، انتشار پیدا کرتی ہوں، والیان ریاست پر اعتماد متزلزل کرتی ہوں، علماء کے مقام کو مجروح کرتی ہوں، وطن عزیز کے مفادات کے منافی ہوں انہیں نظرانداز کرنا اور ان پر مٹی ڈالنا ہی شریعت اور عقل کا تقاضا ہے۔ امام مسجد نبوی نے جمعہ کے خطبے میں آیت الکرسی کے فضائل بھی بیان کئے۔ دوسری جانب مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمان السدیس نے روح پرور ماحول میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے بتایا کہ اسلامی شریعت جمود پذیر مذہب نہیں۔ اسلامی احکام انسانی فطرت کے منافی نہیں۔ اسلامی احکام لچک رکھتے ہیں۔ تجدد پذیر ہیں۔ عصری وسائل سے استفادے کے مخالف نہیں۔ مسلمہ اصولوں اور مثبت تبدیلوں کے درمیان توازن کے علمبردار ہیں۔ امام السدیس نے حاضرین حرم کی توجہ اس امر کی جانب بھی مبذول کرائی کہ اسلام کی تجدید کا نعرہ بڑا دلربا ہے ۔ یہ د ل او ردماغ کو چھو لینے والا لفظ ہے البتہ اسلام کی تجدید کیلئے روشن دماغ اور قرآنی آیات و احادیث مبارکہ سے احکام اخذ کرنے والا اعلیٰ درجے کا ملکہ درکار ہے۔ امام حرم نے کہا کہ اسلامی شریعت نے تجدید کے حوالے سے روشن ضوابط مقرر کئے ہیں۔ اہم ترین اصول یہ دیا ہے کہ تجدید کے عنوان سے اخذکیا جانے والا کوئی بھی حکم قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کے منافی نہ ہو۔ اسلامی شریعت میں مقررہ معتبر مقاصد کے مخالف نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ اگر قرآنی آیات او راحادیث مبارکہ کے متن کا تحفظ نہ کیا گیا ، شرعی مقاصد کا لحاظ نہ کیا گیا تو ایسی حالت میں شریعت کی بقاء خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ امام السدیس نے بتایا کہ تجدید اسلام کا ایک اہم ضابطہ یہ بھی ہے کہ علم ، فکر ، نظر اور تجزیاتی استعداد رکھنے والے معتبر اور مستند علماء ہی یہ کام انجام دیں۔ وجہ یہ ہے کہ شریعت کے مقاصد کی تکمیل اور قرآنی آیات و احادیث مبارکہ متن سے نئے حکم کی مطابقت کا انتہائی نازک کام ایسے ربانی علماء ہی انجام دے سکتے ہیں جو روشن دماغ ہوں۔ اجتہاد کا ملکہ رکھتے ہوں۔ شرعی اصول و قواعد کے ماہر ہوں۔ معاملات کو اسلامی شریعت کے ترازو سے تولنے کی لیاقت رکھتے ہوں۔ امام السدیس نے یہ بھی بتایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی نئے مسائل کے سلسلے میں اجتہاد سے کام لیا تھا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ اختلافی مسائل میں کشادہ ذہنی اور قلبی وسعت کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ مخالف فکر اور اجتہاد پر نکیر میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے۔اسلامی شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ اختلافی مسائل میں مختلف فکر رکھنے والوں کی نکیر جائز نہیں۔ فتوے زمان و مکان ، افراد ، حالات اور رسم و رواج کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں۔ حاکم وقت اختلافی احکام کی بابت فیصلہ کن رائے دینے کا مجاز ہے۔