Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنہیں دو گز زمیں میسر ہو وہ غریب نہیں کہلاتے

 خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی اصطلاح غیر حقیقی امر ہے
اُم مزمل۔جدہ
وہ بیٹنگ کر رہی تھی وہ بولنگ کرا رہا تھااور پرائمری اسکول کا طالب علم جو اپنے اسپورٹس ڈے پرخوب تیز دوڑنے کے مقابلے میں اکثر جیت جاتا تھا ۔وہ یہاں واحد فیلڈر تھا اور دوڑدوڑ کر اب یہی خواہش کر رہا تھا کہ یا تو اماں بیٹنگ کرکے میچ ختم کرنے کا اعلان کردیں یا پھر بابا کا کوئی ضروری فون آجائے اور گیم ختم ہوجائے کیونکہ ہمیشہ کرکٹ کا میچ اسی طرح اختتام پذیرہوتا تھا ورنہ تو کئی گھنٹے گزرجاتے اور کسی کا دل نہ بھرتا تھا۔ قدرت نے فوراً اس کاانتظام کردیا وہ جو ایک میچ دیکھنے پر اپنے آپ کومجبور ہی سمجھتی تھیں کہ آخرگھر کے تمام افراد یہیں لان میں موجود ہیں تو وہ اکیلے کیسے رہیں گی؟ ظاہر ہے کہ ناخوشی سے ہی سہی، ناظرین کی کمی وہی پوری کرتی تھیںاور اکثر کسی نہ کسی بات پر اپنی ناراضی کا اظہار بھی کر دیا کرتی تھیں اور آج بھی موقع ایسا آیا کہ جیسے ہی بہو صاحبہ کی جانب سے بڑے اشتیاق سے چکن سوپ پیش کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیاکہ ابھی موڈ نہیں ہے اور جب میچ کے شور شرابے سے بور ہوکر ٹیبل پر موجودسوپ کے پیالے سے اس کا ڈھکن اٹھایاتو ویسے ہی بہو بیگم کی شاٹ سے بال عین اس پیالے میں لینڈ کر گیا۔ اب میچ نے تو ختم ہی ہوجانا تھا۔
وہ اس چھوٹے سے لان میں اپنا بچپن بھی گزار چکی تھی ۔اپنے بیٹے کو کہتی تھی کہ کبھی اپنی زمین اور اپنی شناخت نہ چھوڑنا۔ یہی زمین ہماری پہچان ہے اور اس کے لئے ہمیں خوب محنت کرنی چاہئے ۔اسکے دونوں بھائی جب اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک چلے گئے تو اس نے جانا کہ وقتی خواہش پوری کرنے میں ہم اپنی زمین چھوڑ جاتے ہیں اور جب خیال آتا ہے کہ کبھی اپنے فیصلے سے ہونے والے فائد ے اور نقصان کا حساب تو لگائیں تو اس وقت نقصان کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہوتا اور دور کے ڈھول سہانے کا مطلب خوب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ۔
وہ اپنے والدین کی وصیت کے مطابق اپنی ٹیکسٹائل ملز کو وسعت دینے کی سعی کرتی رہتی تھی اور اس کام میں اس کے شوہر کی پوری معاونت اسے حاصل تھی۔ اکلوتے صاحب زادے بھی خوب اپنی عمر کے حساب سے اپنی والدہ کا خیال رکھتے تھے اور یہی انکا کمال تھا کہ اپنا ہوم ورک خود کرلیں۔ اسکول کے تمام ٹیسٹس میں اچھے نمبرلائیں اور گھر میں اپنے رزلٹ سے والدین کو خوش کر دیں۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو زیادہ پڑھنے کے باوجود صرف اپنی بیگم کا کاروبار سنبھالنے پر کئی مرتبہ ناراضی کا اظہار کیا لیکن اس کا کہنا تھا کہ اگر اس کے دونون بھائیوں میں سے ایک بھی یہاں موجود ہوتے تو وہ کبھی اس کے بزنس میں اپنی شرکت کو ضروری نہ سمجھتا لیکن اب سب کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹیلی کمیو نیکیشن بہت ترقی کر گئی ہے۔ دنیا سمٹ گئی ہے اور تجارت کرنا وہ بھی ایمانداری کے ساتھ بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایک آدمی پر سب کام کی ذمہ داری ڈال دیں تو ملازمین اپنی من مانی کرنے لگتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں مخلص لوگ کم ہی ملتے ہیں ۔وہ جب اپنے ملک کے دارالحکومت جاتیں اور دوسرے بیٹے کے گھر کو دیکھتیں تو خوشی سے ان کا دل کھل اٹھتا اور وہ ہر سال واپسی پریہی کہتیں کہ مجھے تم لوگ لینے آگئے جب کہ ابھی تو وہاں میرے سلسلے میں بیٹے کے دوست، احباب کی فیملیز انکے اعزاز میں کئی ڈنر ارینج کرنے والی تھی لیکن جہاں میں گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کے پاس گرم موسم سے اچھے موسم والے شہر جاتی ہوں ،تم لوگوںکو نجانے کیا کام پڑجاتے ہیں کہ مجھے لینے وہاں پہنچ جاتے ہو ۔بس اب میں نے کہہ دیا ہے کہ تمہارے بابا حیات تھے جب سے ہی میں نے کہہ رکھا تھا کہ میںزیادہ عرصے بڑے بیٹے کے گھر رہوں گی۔ انہیں بڑے بیٹے کا گھر،یہاں سے وہاں تک ،کئی ایکڑ رقبے پر سبزے کے بیچوں بیچ سفید سنگ مرمرسے تعمیر شدہ سر اٹھائے کھڑی عمارت دنیا کا سب سے اچھا مسکن دکھائی دیتا تھا۔ وہاں جو بیورو کریٹ کی فیملیز ان کے گھر آتیں، یہی خواہش کرتیں کہ اسی طرح بیرون ملک سے قرض انکے شوہر لے لیتے تو انکا بھی ایسا ہی تصوراتی گھر بن جاتا لیکن، اب تو بس خیالوں میں ہی بن سکتا ہے کہ بچوں کا دل اپنے ملک میں لگتانہیں تو انہیں دلچسپی بھی نہیں۔ آج بڑی خاموشی تھی۔ وہ اچانک واپس لائے جانے پر کچھ ناراض تھیں۔ یہی کہہ رہی تھیںکہ یہاں مجھے کیا کام کرنا تھا سوائے تم لوگوں کے شور ہنگامے کے۔ کچھ نہ ملا تو سارا سارا دن ایک بال بیٹ لیکر شور مچاتے رہتے ہو۔ اتنے شور میں تو آدمی کا جینا ہی دوبھر ہو جائے ۔
وہ ماں کو حقیقت بتانے کا ارادہ کرتا لیکن وہ پھر کوئی ایسی بات کر دیتیں کہ گھر میں سب کھیل جیسی صحت مند مشغولیت میں مصروف رہ کر زیادہ سوال جواب نہ کریں لیکن قدرت نے اپنا فیصلہ کر رکھا تھا۔ وہ رات گئے اپنے کسی کام سے راہداری تک گئیں تو ان دونوں کو مصروف گفتگو پایا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ ہم کب تک یہ بات چھپا پائیں گے۔ اماں تو چند ماہ کے بعد بھائی کے گھر جانے کا پروگرام بنا لیں گی اور جیسا کہ بھاءی کا پہلے ہر مرتبہ فون آجاتا تھا کہ اماںکو لینے آجاﺅ، یہاں بچوں کا بیرون ملک کی سیاحت کاپروگرام بن رہا ہے اور اب معلوم ہوگا کہ گھر وہ رہا ہی نہیں ۔انہوں نے قرضہ حاصل کیا تھا اور ان کی یہی شرط تھی کہ بیس سال میں سود سمیت واپس کرو ورنہ گھر کا ہم قبضہ لے لیں گے ۔وہ اپنی جگہ حیرت سے کھڑی کی کھڑی رہ گئیں کہ وہ اپنے چھوٹے اور بڑے بیٹے میں فرق کرتی تھیں لیکن بغیر سود کے کاروبار کرنے والے اپنے چھوٹے بیٹے کو انہوں نے سچ مچ ہی چھوٹا سمجھ لیا تھا۔ وہ توبہ کر رہی تھیں۔ پریشانی میں گھرے بیٹے کے لئے مالک سے معافی مانگ رہی تھیں۔ وہاں بہو صاحبہ کی آواز آرہی تھی کہ میں نے اپنے تمام ملازمین کو کوارٹر بنوا کر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلاسود قرضے لو اور آسان اقساط میں واپس کردو۔ جنہیں دو گز زمیں میسر ہو وہ غریب نہیں کہلاتے ۔
٭٭جاننا چاہئے کہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی اصطلاح غیر حقیقی امر ہے کیونکہ جو ایمان کے ساتھہ دو وقت کی روٹی کا انتطام کر لے اس جیسی عافیت امیروں کوبھی میسر نہیںہو پاتی۔
 

شیئر: