Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیمی ورکشاپ، جہاں ٹیچرز کے ”نٹ بولٹ “کسے جا تے ہیں

مسز زاہدہ قمر ۔ جدہ
جون جولائی کی گرم صبح، ساڑھے8 سے9 بجے کا وقت۔ اسکول بس نئے اساتذہ کے دروازے پر ۔فجر کی نماز پڑھ کر آنکھ لگ گئی مگر بے چینی سی بے چینی اور چبھتی ہوئی گرمی ۔20پچیسمنٹ میں ہی اُٹھ گئے۔ یہ بیس25 منٹ ڈیڑھ گھنٹہ کیسے بن گئے؟ ہم سوئے ہی کب تھے جو 5بجے سے ایک دم ساڑھے 6 ہو گئے؟ بزرگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ وقت میں برکت نہیں رہی۔ اسکول جانے کے خوف اور گھبراہٹ سے ناشتہ بھی کرنے کو دل نہیں چاہ رہا، حلق کڑوا ہو گیا تھا۔ نہ صبح اُٹھنے کو دل چاہا نہ اسکول جانے کو مگرجناب! بچوں کی چھٹیاں ہیں اور ہم ٹھہرے نئے اُستاد حالانکہ کوئی استاد نیا یا پُرانا نہیں ہوتا۔ استاد صرف استاد ہوتا ہے اور بس۔
واہ!کیا عالی شان سوچ ہے ہماری۔ہم نے خود کو جی بھر کے سراہا۔ تو جناب! خالی اسکو ل میں ہماری تربیت کا آغاز ہو گا۔ تمام جونیئر اساتذہ یقیناً اس مرحلے سے کم و بیش ایک آدھ بار ضرور گزرے ہونگے۔ آپ کے لئے ممتاز ماہرین ِ تعلیم کو بُلایا گیا ہے اور یہ ماہر تعلیم ہم سب کو بتائیں گے کہ مستقبل کے معماروں کو کیسے اور کیوں پڑھانا ہے۔بس جانب ہم ہوگئے تیار اوراسکول بس میں بیٹھنے کیلئے بے قرار۔ ہم سے پہلے بیٹھے نئے پنچھی ازحد بے زار۔ سب کے تاثرات خوانخوار۔ کیا مصیبت ہے بھئی ؟اے سی کی ٹھنڈک بادِ بہاری کی طرح اٹکھیلیاں کر رہی تھی اور سب اسے اپنی راہ لگنے کا مشورہ دیتے تاثرات رکھتے تھے۔ سب کے منہ پھولے ہوئے تھے۔بس چلی اور مختلف اسٹاپ سے مزید پھولے ہوئے چہروں کو اُٹھایا اور عازم سفرہوگئے۔ شہر کے مشہور اسکول کی عالیشان عمارت پر ہر طرف سناٹا ۔بچے رُخصت پراور اساتذہ تربیت پر ،دل کا باغ نما گراﺅنڈ جس میں طالبات نے کچھ دن پہلے پودے لگا لئے تھے، اپنی بہار کے اولین دور میں تھا ۔بشمول ہم لیڈیز اسٹاف روم میں اور مرد اساتذہ مردانہ اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئے ۔ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ احکامات صادر ہوئے ”سارے فیکلٹی ممبرز لائبریری میں آجائیں“ ہم نے بلا مبالغہ خود کو ”بگ باس“ کا حصہ تصور کیا۔
لا ئبریری وسیع و عریض ، ٹھنڈی ٹھار۔ مردو خواتین اساتذہ کے لئے الگ الگ فاصلہ دے کر بنی ہوئی کرسیاںقطار در قطار۔ پیچھے پرنسپل ، وائس پرنسپل اور ایڈمن آفیسرز کی نشستیں۔ سامنے وائٹ بورڈ اور ہمارے ٹیچرز یعنی ممتاز ماہرین تعلیم۔بیچ میں اساتذہ! گویا ”آگے کنواں پیچھے کھائی، کسی وقت بھی شامت آئی“۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ غیر معمولی طریقے سے اپنے ہاتھوں کو موڑ توڑ کر اور چہرے کے تکلیف دہ زاویے بنانے اور جبڑے کو نا قابلِ یقین حد تک چیرنے والی ٹیچر نے ہم ”طالب علم واساتذہ “کو مخاطب کیا اور کہا کہ آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ ”ہم آپ کے ہیں کون؟“کھی،کھی، کھی۔کانوں میں صبا کی سر گوشی نما آوازآئی ۔وہ ہم سے بحالت مجبوری کرسی جوڑے بیٹھی تھیں اور اب ”پاکستان ساختہ فین“ کی طرح ”بے آواز“ ہنس رہی تھیں۔ہم آپ کو بتا ئیں گے کہ آجکا مرکز طالب علم ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج کا طالب علم کیا چاہتا ہے؟ کیا سوچتا ہے؟کیا پسند اور کیا نا پسند کرتا ہے؟ اسے اگلی صدی میں ”سروائیو“ کرنے کیلئے کیا درکار ہے؟
”موبائل اورنیٹ“ یہ روبینہ تھی جودائیں طرف براجمان تھی۔ زیرِ لب اس کی بڑبڑاہٹ،ٹیچر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو حتی الامکان پھیلایا ایک ہونٹ زمین اور دوسرا آسمان کی طرف روانہ کیا اور پھر سے گویا ہوئیں کہ”آپکو معلوم ہے کہ طلبا عموماًایک دوسرے سے کیا پوچھتے ہیں ؟یہی کہ اس مہینے کی تنخواہ ملے گی کیا؟“۔ ایک پرچی پیچھے سے ہمارے بازوﺅں سے ہوتے ہوئے ہاتھ میں پھڑ پھڑائی۔ ”کیوںکیا ہم بلا معاوضہ ”چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا“ والے کبوتر بن گئے ہیں؟ پرچی واپس جا چکی تھی کیونکہ ہم ابھی نئے ہیں۔ چٹھی کی پھر سے آمد ”تو؟“چٹھی کی واپسی۔” ٹیچرز کو سیلری پروبیشن پیریڈ کے بعد ملتی ہے۔ “چٹھی برآمد۔”آپ کا فرض ہے کہ آپ یہ بات دریافت کریں۔“
ٹیچر کے منہ کا ایک اور تکلیف دہ زاویہ مگر اب کے ہمارا منہ بھی حیرت سے کھل چکا تھا۔ بیلٹ بکس کی طرح۔ان کو کیسے معلوم کہ سیلری نہیں ملے گی؟ جو یہ ہمیں اسکول انتظامیہ سے دریافت کرنے کا مشورہ صادر کر رہی ہیں ؟ ہم حیران ، پریشان، پشیمان، مہربان اور پتا نہیں کون کون سے” آن بان“ ہوتے کہ دوسرا جملہ اوقات یاد دلا گیا۔ ”آپ طلباءسے دریافت کریں کہ انہیں آپ کا طریقہ تدریس کیسا لگتا ہے ؟ اور اگر وہ کوئی خامی بتائیں، وہ داد طلب نظروں سے سب کو دیکھتی ہوئی پوری گھوم گئیں ”تو“؟ خندہ پیشانی سے سُنیں اوراسے دور کرنے کی کوشش کریں کیونکہ طالب علم، اگر چہ طالب علم، چونکہ طالب علم، چنانچہ طالب علم، اگر طالب علم،مگر طالب علم، لیکن طالب علم، شاید طالب علم، یقیناًطالب علم، یہ طالب علم، وہ طالب علم، اُف!گھومتا ہوا کمرہ ، دُکھتا ہوا سراور ہر طرف طالب علم ہی طالب علم۔بہ ہزار دِقت سر اُٹھایا تو ٹیچر جا چکی تھیں مگر مثال بن کر: 
گونجوں گا تیرے ذہن کے گنبد میں رات دِن
جس کو نہ تم بُھلا سکو، وہ گفتگو ہوں میں
وہ ٹیچر کی چیئر پر بیٹھیں تو جان میں جان آئی ۔چار ٹیچرز تھے، دو ریفرشمنٹ کے وقفے سے پہلے لیکچر دیں گے اور دد ریفریشمنٹ کے بعد۔ ہم سہمے بیٹھے تھے کہ جانے اب کیا لیکچر سُننے کو ملے کہ ایک دراز قد ٹیچر اپنی نشست سے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے روسٹرم سنبھالا یا شاید روسٹرم نے انہیں سنبھالا کیونکہ وہ ہمارے تعلیمی نظام کی طر ح کمزور اورمہین تھے۔
”ہوا بہت تیز ہے ، کہیں سر اُڑ نہ جائیں؟ روبینہ فکر مند ہوئی۔”نہیں اُڑیںگے۔دیکھتی نہیں ہو، انہوں نے ہاتھ میں ڈسٹر پکڑا ہوا ہے “ ہم نے دلاسہ دیا۔ ”خودی کو کر بلند اتنا“ انہوں نے اپنے سے زیادہ لمبی آواز نکالی۔ یہ خودی کو کیا بلند کریں گے۔ یہ تو ”خود ہی “ بلند ترین ہیں “چٹھی پھر سے برآمد ہوئی۔ ٹیچر نے مُسکرا کر تھوڑا سا وقفہ دیا اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی کیا تیل بھی نہیں رہا۔
”طالب علم کو مارنا نہیں، اسے ڈانٹنا نہیں ، اسے گھورنا نہیں، اسے کلاس میں کھڑا نہیں کرنا، اسے نصیحت نہیں کرنی، اس سے پوچھ گچھ نہیں کرنی ،اس پر طنز نہیں کرنا، اس کو طعنے نہیں دینا اس کی غلطی نہیں پکڑنی۔ اس سے سختی سے بات نہیں کرنی ، زیادہ کام نہیں کروانا، زیادہ کام نہیں دینا ۔یہ نہیں وہ نہیں اور نہیں نہیں بالکل نہیں “
”سر ! طالب علم کو پڑھانا بھی ہے یا نہیں؟“ ایک نئے ٹیچر نے حیرت سے پوچھا ۔وہ اس فیلڈ میں بالکل نیا تھا۔ساری گردنیں اس کی طرف گھوم گئیں۔ پرنسپل صاحبان اور ٹیچر ز کے چہروں کے زاویے سخت بگڑ گئے۔ دیگر ٹیچرز اس کے متعلق بات کرنے لگے۔ وہ شرمندہ ہو کر اپنے کالر میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے ” بڑوں “ کے تاثرات نارمل ہوئے اور لیکچر پھر سے شروع ہوا تو لگتا تھا اب ختم ہی نہیں ہو گا۔ ریفرشمنٹ ، لیکچرز، لب لباب یہ کہ طالب علم تعلیمی تکون کا مرکز۔ پھر والدین اور بعد میں انتظامیہ۔ گویا استاد کہیں نہیں کیونکہ انتظامیہ ہی اساتذہ کی ذمہ دار ہوتی ہے لہٰذا اس تکون میں انتظامیہ یعنی اسکول مینجمنٹ کو شامل کرنا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے اسکول اور اساتذہ سب اسی کے ماتحت آتے ہیں۔ یہ سب اور بہت کچھ دیکھ کر ایک پُرانی دُکھیا کا شکوہ زبان پر آگیاکہ ”جب میں بہو تھی تو ساس اچھی نہ ملی اورجب میں ساس بنی تو بہو اچھی نہ ملی یعنی جب ہم طالب علم تھے تو ٹیچر کا حکم اہم اور گرفت انتہائی مضبوط تھی۔ وہ اداروں کے کرتا دھرتا تھے اور جب رو دھو کر پڑھائی سے فارغ ہوئے تو زمانہ بدل گیا اور اب طالب علم کی حکمرانی ہے۔ طلباءیا طالبات کے احساسات کو مجروح نہیں کرنا، ان کے والدین کے احساسات کو مجروح نہیں کرنا۔ ان کے رشتے داروں کے احساسات، ان کے پڑوسیوں کے احساسات اور لگتا ہے کہ ان کے نوکروں کے احساسات کا بھی خیا ل رکھنا ہے اور ٹیچر..........
کوئی تعلیمی ورکشاپ ٹیچر کو یاد نہیں رکھتی۔ ٹیچرز وہ بھولے لوگ ہیں جنہیں سب بھولے ہیں۔ دراصل ہماری ناقص عقل کے مطابق ہر تعلیمی ورکشاپ پرانی گاڑیوں کی ورکشاپ جیسی لگتی ہے جہاں ٹیچرز کے نٹ بولٹ کسے جا تے ہیںاور ان کے اسکرو ٹائٹ کئے جاتے ہیں۔ ویسے بھی ٹیچرز اور گاڑی میں کوئی فرق نہیں ۔دونوں ہی مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہیں پھر چاہے وہ تعلیمی منزل ہو یا عام منزل، انجام بھی تقریباً ایک سا۔ ٹوٹی پھوٹی حالت، خالی وجود اور کبھی کبھی یا شاید ہمیشہ ایک بے کار بیمار اور مایوس وجود۔ ایک ناقابلِ رشک انجام۔ کیا اس پر کوئی صاحبِ دل غور کرے گا ۔ جب اُستاد معاشی اور معاشرتی لحاظ سے پرسکون نہیں ہو گا ، کوئی ورکشاپ، تربیتی کورس نصیحت آمیز لیکچر اور انتظامیہ کے سخت ترین احکامات یا اقدامات، تعلیمی معیار بلند نہیں کر سکتے۔ دعویٰ ہے، آزمالیجئے،غلط نکلے تو ہر سزا قبول ہے۔
 

شیئر: