ہاشم پورہ کے قاتلوں کو عمرقید
یوپی سرکار کی مشینری نہیں چاہتی کہ ہاشم پورہ کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے، یہی وجہ ہے کہ انصاف کی راہ میں بے شمار روڑے اٹکائے گئے
معصوم مرادآبادی
31سال کی طویل اور صبر آزما قانونی جنگ کے بعد میرٹھ کے ان فساد زدگان کی آنکھوں میں پہلی بار امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے، جنہوں نے حالیہ تاریخ کے ایک بڑے قتل عام کو اپنے وجود پر جھیلا تھا ۔ دہلی ہائی کورٹ نے ہاشم پورہ قتل عام کے جن 16مجرموں کو عمرقید کی سزا سنائی ہے،وہ کوئی عام مجرم یا پیشہ ور قاتل نہیں بلکہ اترپردیش کے ایسے وردی پوش جوان ہیں جن کے کاندھوں پر لوگوں کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ ان لوگوں نے میرٹھ کے خوفناک فسادات کے دوران وہاں امن وامان قائم کرنے اور بے قصور لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ایسا گھناؤنا اور وحشیانہ سلوک کیا کہ پوری انسانیت کانپ اٹھی تھی۔ میرٹھ کے ہاشم پورہ علاقے سے تلاشی کے دوران گرفتار کئے گئے 42 مسلمانوں کوویرانے میں لے جاکر گولیوں سے بھون دیا گیا اور ان کی لاشیں ندی میں بہادی گئیں۔اِن میں سے 4 بچ گئے تھے۔ مرنے والوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان تھے اور مارنے والے اترپردیش کی بدنام زمانہ پی اے سی کے بہادر جوان تھے۔ یہ بھی قدرت کا ہی نظام ہے کہ اپنے محکمے کی اس گھناؤنی حرکت کو بے نقاب کرنے کا کام اُس وقت کے غازی آباد ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ وی این رائے نے انجام دیا۔ انہوں نے اس رونگٹے کھڑے کردینے والے قتل عام کی رپورٹ درج کرنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ اس پورے واقعہ کو تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کیلئے محفوظ بھی کردیا۔انہوں نے اپنی انگریزی کتاب ’’ہاشم پورہ 22مئی‘‘ میں پی اے سی جوانوں کی بربریت اور درندگی کی دلخراش کہانی پوری جرأت کے ساتھ بیان کی ہے۔ افسوس کے اس موقع پر غازی آباد میں تعینات ایک مسلمان کلکٹر نے نہ تو اس معاملے کو اجاگر کرنے میں کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی ہاشم پورہ قتل عام کی تحقیقات کے دوران کوئی تعاون کیاجبکہ یہ مسلمان کلکٹر بھی اس دل دہلادینے والی واردات سے اتنے ہی آشنا تھے جتنا کہ وی این رائے۔
ہاشم پورہ قتل عام کو دنیا میں حراستی قتل کا سب سے بڑا معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل عام کے مجرموں کو سزا سناتے وقت ہائی کورٹ نے تلخ تبصرے کئے ہیں۔اُس نے پی اے سی جوانوں کی حرکتوں کو درندگی اور ہڈیوں میں لرزہ پیدا کرنے والا عمل قرار دیتے ہوئے حراستی قتل کی سنگین واردات قرار دیا ۔ دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنانے کے بعد انسانی جذبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ 22 مئی 1987کو جو لوگ غائب ہوئے تھے، وہ دوبارہ واپس نہیں آئے۔ کئی مقتولین کی تو لاشیں بھی ان کے پسماندگان کو نصیب نہیں ہوئیں۔‘‘
دراصل یہ قصہ 22مئی 1987 کا ہے۔ فساد زدہ شہر میرٹھ میں فوج نے رمضان کے مہینے میں نماز جمعہ کے بعد ہاشم پورہ اور آس پاس کے محلوں میں تلاشی ، ضبطی اور گرفتاری کی مہم چلائی۔ وی این رائے کے بقول’’ فساد زدہ علاقوں میں اس قسم کی کارروائیاں محض مسلم علاقوں میں ہی انجام دی جاتی ہیں ، پولیس ان علاقوں کو’’دشمنوں کی پناہ گاہ‘‘ کے طورپر نشان زد کرتی ہے۔ اس مہم کے دوران فوج نے ہاشم پورہ علاقے کے تمام مردوں اور بچوں کو گرفتار کرکے سڑک پر اکٹھا کیا اور وہاں موجود پی اے سی جوانوں کے حوالے کردیا۔ اس پورے علاقے میں یوں تو 644 گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں اور انہی میں ہاشم پورہ کے 42 مسلم نوجوان بھی شامل تھے۔ انہیں پی اے سی کے جس ٹرک میں بٹھایاگیا، اس میں 41ویں بٹالین کے 19جوان موجود تھے۔ ان جوانوں نے گرفتار شدگان کا وحشیانہ قتل کرکے انہیں مراد نگر کی گنگا نہر اور غازی آباد کی ہنڈن ندی میں پھینک دیا۔ ان میں 38لوگوں کی موت واقع ہوگئی تھی اور 4نوجوان کسی طرح جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انہی نوجوانوں کی گواہی کے نتیجے میں مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں مدد ملی ہے۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس قتل عام کے مقدمے کو فیصل ہونے میں 31سال کا طویل عرصہ کیوں لگا؟ اس معاملے کو اترپردیش پولیس کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ہی دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں منتقل کیاگیا تھا لیکن تحقیقاتی ایجنسی کی سازشوں کے نتیجے میں 28سال بعد 21مارچ 2015کو ٹرائل کورٹ نے ثبوتوں کی عدم موجودگی اور ملزمان کی شناخت نہ ہونے کی بنیاد پر تمام 16پولیس والوں کو بری کردیا تھا۔ ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیاگیا جہاں 31اکتوبر کو عدالت نے تمام مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ مجرموں کی مجموعی تعداد 19تھی لیکن سماعت کے دوران ان میں سے 3ملزمان کی موت واقع ہوگئی۔
دہلی کی تیس ہزاری عدالت میں ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ درحقیقت یوپی حکومت کی عدم دلچسپی کا مظہر تھا کیونکہ یوپی سرکار کی مشینری یہ نہیں چاہتی تھی کہ ہاشم پورہ کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچایاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ انصاف کی راہ میں بے شمار روڑے اٹکائے گئے۔ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس مرلی دھر اور جسٹس ونود گوئل کی بنچ نے پی اے سی کے جوانوں کو اغوا، قتل اور ثبوتوں کو مٹانے کا مجرم قرار دیا ہے۔ ہاشم پورہ قتل عام سے متعلق جس جنرل ڈائری (جی ڈی) کو اترپردیش حکومت 30سال تک دبا کر بیٹھی رہی، اسی ڈائری کو ہائی کورٹ نے سزا سنانے کیلئے سب سے اہم ثبوت تسلیم کیا۔ ہائی کورٹ نے کہاکہ اس معاملے سے متعلق اہم دستاویز یوپی حکومت کی تحویل میں ہونے کے باوجود انہیں فوری طورپر جانچ ایجنسی کو نہیں سونپا گیا اور ان دستاویز کی سپردگی قومی انسانی حقوق کمیشن کی درخواست پر ہائی کورٹ کے حکم کے تحت عمل میں آئی۔ ہائی کورٹ نے کہاکہ عدالت میں پیش کی گئی جنرل ڈائری سے واضح ہے کہ پی اے سی کا جو ٹرک واقعہ کے دن ہاشم پورہ گیا تھا اور وہاں سے 42لوگوں کو لے کر آیا تھا ،اس میں پی اے سی کے 19جوان موجود تھے۔ دستاویزوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مجرموں نے منصوبہ بند طریقے سے بے قصور لوگوں کے قتل کو انجام دیا۔ بنچ نے کہاکہ طبی ثبوتوں کے مطابق ایک مقتول نوجوان کے جسم سے برآمد کی گئی گولی 303کی تھی اور فورنسک کے رپورٹ کے مطابق مذکورہ گولی مجرموں کی بندوق میں بھی موجود تھی۔ بنچ نے کہاکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمان پر جرم ثابت ہوتا ہے۔ ہاشم پورہ کے وردی پوش قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عدالتی فیصلہ ہندوستان کے اُن تمام فساد زدگان کیلئے امید کی ایک کرن ہے جو آزادی کے بعد سے مسلسل فسادیوں اور پولیس کی مشترکہ سازش کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔