Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب 6ارب ڈالر سے غریب ملکوں کے حق میں دستبردار

 جمال بنون۔الحیاۃ

کئی برس سے سعودی معیشت مشکلات سے دوچار ہے۔ عالمی بازاروں میں تیل کے نرخ گھٹنے پر سعودی معیشت دشواریوں کا شکار ہوگئی۔قومی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تیل ہی ہے۔ دیگر ذرائع سے ہونیوالی آمدنی بہت معمولی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں اور گلوبلائزیشن کے چیلنج بھی سامنے آگئے۔ سعودی عرب نے ترقیاتی تصور جاری کیا۔ اپنے شہریوں پر انحصار کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور ترقی کی ہم رکابی کا عزم باندھا۔ سالانہ بجٹ میں رونما ہونیوالے فرق کے باوجود سعودی عرب کے تمام فرمانرواؤں نے برادر و دوست ممالک اور ان کی اقوام کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ جب بھی کسی ملک میں کسی بحران نے جنم لیا یا قدرتی آفات سے دوچار ہوا یا اقتصادی آفت نے کسی ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ برادر یادوست ملک کے سربراہ نے سرکاری خزانے کی مدد کیلئے ٹیلیفون پر رابطہ قائم کیا سعودی عرب نے اس کی طرف دست تعاون بڑھایا۔
    سعودی عرب نے اقتصادی ، ترقیاتی اور اصلاحی پروگراموں سے جنم لینے والے چیلنجوں کے ماحول میں گزشتہ ہفتے پوری دنیا کے سامنے یہ اعلان کرکے کہ کم ترقی پذیر ممالک پر واجب الادا 6ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے معاف کئے جارہے ہیں۔ پورے جہاں کو حیرت زدہ کردیا۔ ریال میں یہ رقم 22ارب سے زیادہ بنتی ہے۔ سعودی حکومت یہ بھی کرسکتی تھی کہ برسہا برس تک قرضوں کی وصولی سے خاموشی اختیار کرلیتی یا آسان شرائط پر قسطوں میں وصولی کا فیصلہ کرلیا جاتا۔ مملکت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ سعودی عرب نے اپنی کسی پالیسی کی حمایت کیلئے قرضہ لینے والے ملک پر کسی طرح کا کوئی سیاسی دباؤ نہیں ڈالا، غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ قرضہ یا مدد کے بدلے عالمی برادری کے سامنے اپنے کسی موقف کی تائید و حمایت کا مطالبہ نہیںکیا۔ اگر یہ قرضے عالمی مالیاتی فنڈ سے لئے گئے ہوتے تو نہ جانے کتنی شرائط قرضہ لینے والے ممالک پر تھوپ چکا ہوتا۔
    جب بھی سعودی عرب سے کسی نے مدد کی اپیل کی تب تب سعودی عرب نے لبیک کہا۔ مملکت مالدار ریاست ہے لیکن پٹرول کے سوا آمدنی کا کوئی معتبر ذریعہ سعودی عرب کے پاس نہیں ہے۔ سعودی عرب کے انسانیت نواز اقدامات کے باوجود قرضہ لینے اور مدد لینے والے بعض ممالک سعودی عرب کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ناقدین یہ تک کہتے ہیں کہ سعودی عرب مدد کے طور پر جو رقم دیتا ہے وہ مدد لینے والے ممالک کے سربراہوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ یہ الزام درست نہیں ہے کیونکہ سعودی ترقیاتی فنڈنقدی کی صورت میں قرضے اور مدد نہیں دیتا بلکہ متعلقہ ملک کی ضرورت کے تحت اس کے منصوبوں کی فنڈنگ کرتا ہے۔کبھی کبھی متعلقہ ملک کے مرکزی بینک میں رقم رکھ کر اس کی کرنسی کی قدر مضبوط بنانے کا اہتمام کرتا ہے۔
    سعودی عرب نے کم ترقی پذیر ممالک کے جو قرضے معاف کئے ہیں اس کا محرک بنی نوع انساں کی صلاح و فلاح کے عالمی مشن میں حصہ لینا ہے۔ اس اقدام سے 80ممالک کو فائدہ ہوا۔ سعودی عرب 122ارب ریال سے زیادہ کی رقم مختلف ممالک کو پیش کرچکا ہے۔ 999انسانیت نواز منصوبے ،150بین الاقوامی اور قومی تنظیموں کے تعاون و اشتراک سے نافذ کئے۔ استفادہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں مصر سب سے اول ہے۔ پھر تیونس ، پاکستان، سوڈان اورمراکش کے نام آتے ہیں۔ سعودی عرب 5براعظموں میں امدادی وترقیاتی منصوبے نافذ کرچکا ہے ۔ان میں سے ایشیا میں 21ارب ڈالر،افریقہ میں 9.8ارب ڈالر، یورپ میں 379ملین ڈالر اور شمالی امریکہ میں 376ملین ڈالر کے منصوبے نافذ کرائے گئے ہیں۔ یمن کو آسان شرائط پر قرضے اور عطیات دیئے گئے۔ یمن میں 285سے زیادہ منصوبے نافذ کرائے اور 13ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد پیش کی۔
    اگر ہم سعودی عرب کی مادی ، معنوی اور انسانی امداد کی تفصیلات پیش کرنا چاہیں تو اس کالم میں ایسا ممکن نہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سعودی عرب امداد اور تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بھلائی کو نظر انداز کرکے احمقانہ بیان بازی کرنیوالوں اور وظیفہ خوار قلم کاروں کی بدزبانی سے کبھی نہ متاثر ہوا ہے اور نہ ہوگا۔
 

مزید پڑھیں: - -- -انسانی حقوق اور سعودی عرب

شیئر: