Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیوانہ

***جاوید اقبال ***
اہلیہ کا خیال تھا کہ ملکہ روم کی بھیجی جواہرات کی بوتلیں وہ اپنی ملکیت میں رکھ سکتی تھیں کیونکہ انہوں نے ملکہ کو عطر کی چند بوتلیں تحفتاً بھیجی تھیں جس کے جواب میں ملکہ نے قیمتی پتھر قاصد کے ہاتھ ارسال کیے تھے۔ عمر ابن الخطابؓ نے اپنی اہلیہ ام کلثوم کو کہا کہ وہ جواہرات بیت المال بھجوادیں کیونکہ وہ ریاست کی ملکیت تھے۔ جب انہیں مطلع کیا گیا کہ ملکہ روم کی طرف سے بھیجا گیا تحفہ اس عطر کے جواب میں اظہار تشکر کے طور پر پیش آیا تھا جو ام کلثوم نے پہلے بھیجا تھا تو امیر المومنین بولے ’’درست ہے لیکن عطر لے جانے والے قاصد کا مشاہرہ بیت المال سے ادا ہوتا ہے اس لیے جواہرات کا صحیح مقام بیت المال ہے۔‘‘ حکم کی بے چوں و چرا تعمیل کی گئی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کابینہ ڈویژن میں بھی ایک بیت المال قائم ہے جسے توشہ خانہ کہا جاتا ہے۔ ملک کے صدور اور وزرائے اعظم اور وزراء کو بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانے میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے میمورنڈم کے مطابق دورے پر جانے والا وطن واپس پہنچتے ہی کابینہ ڈویژن کے حوالے وہ سارے تحائف کردے گا جو اسے ملے ہوں۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے خلاف قرار واقعی کارروائی کی جائے گی۔ اگر اس کے ہمراہ وزارت خارجہ کا چیف آف پروٹوکول گیا ہے تو پھر یہ اس افسر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وی وی آئی پی کو ملنے والے تحائف کی تفصیل توشہ خانے کو دے۔ اگر نقدی کی صورت میں تحفہ دیا گیا ہے تو وہ ساری رقم حکومتی خزانے میں جمع کرائی جائے گی اور چالان توشہ خانے کے حوالے کیا جائے گا۔ پھر کابینہ ڈویژن ان تحائف کی قیمت سی بی آر اور ٹیکسلا عجائب گھر کے ماہرین سے لگوائے گا۔ اگر تحفے کی قیمت 10ہزار روپے تک لگائی گئی تو وصول کنندہ رہنما اسے اپنے پاس بلامعاوضہ رکھ سکے گا۔ اگر اس کی قیمت 20 ہزار روپے تک لگی تو رہنما اس قیمت کا 20 فیصد دے کر اسے گھر لے جائے گا۔ اگر ماہرین نے تحفے یا تحائف کی قیمت 25 لاکھ لگائی تو ایسی صورت میں رہنما اس رقم کا 65 فیصد ادا کرے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دورے سے واپس آئے رہنمائوں کو اگر قدیم تاریخی اشیاء اور قیمتی گاڑیاں تحفے کے طور پر ملی ہوں تو وہ انہیں نہیں خرید سکتے۔ قدیم یادگار اشیاء عجائب گھر جبکہ گاڑیاں کابینہ ڈویژن میں بھیجی جائیں گی۔  ایسے ملنے والے تحائف کی دانستہ طور پر کابینہ ڈویژن سے قیمتیں کم لگوائی جاتی رہیں اور پھر اونے پونے داموں انہیں اٹھاکر گھر لے جایا جاتا رہا۔ صرف 1999ء سے 2009ء تک کے عشرے میں ہمارے صدور، وزرائے اعظم اور وزراء کو 3 ہزار 486 تحائف ملے۔ ان ہزاروں بیش بہا تحائف میں سے صرف 118 کی قیمت لگائی گئی تاہم یہ المیہ قابل ذکر ہے کہ ان کے لیے صرف ڈیڑھ کروڑ روپے حکومتی خزانے میں جمع کرائے گئے ۔ ایک عرب ملک کے دورے کے دوران پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف نے سونے اور ہیرو کا ایک ہار اڑا لیا۔ اس کی قیمت 60 لاکھ روپے لگائی گئی لیکن بیگم صاحبہ نے ایک معمولی سی رقم ادا کی۔ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے تحائف کی تفاصیل تو آئی ہیں لیکن اس نقصان کا اندازہ نہیں ہوسکا ہے جو ان دونوں کے ’’کرتوتوں‘‘ نے ملکی خزانے کو پہنچایا۔ اب پتہ چلا ہے کہ مشرف اور شوکت عزیز مروجہ قوانین میں 4 مرتبہ تبدیلیاں لاکر 2 ہزار تحائف توشہ خانے سے لے اڑے۔ یہ تبدیلیاں اس لیے لائی گئیں کہ حکومتی خزانے میں بہت کم رقم جمع کرائی جائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی صدارت کے آخری 3 برسوں میں جنرل مشروف نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کے بارے میں کابینہ ڈویژن کو مطلع کرنا بھی چھوڑ دیا تھا اور وہ اشیاء ہوائی اڈے سے سیدھی ان کے گھر منتقل ہوجاتی تھیں۔  شوکت عزیز نے بھی ہاتھ ہلکا نہ رکھا۔ آخری پرواز میں ان کے پاس ایک ہزار 126 تحائف تھے جن کی قیمت 2 کروڑ 60 لاکھ روپے لگائی گئی تھی۔ انہوں نے ان نایاب اشیاء کے لئے صرف 29 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ مشرف نے 3 کروڑ 30 لاکھ روپے قیمت کے تحائف کے لئے 51 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان سب نادر اشیاء کی قیمت کابینہ ڈویژن نے ان کی منڈی میں قیمت سے انتہائی کم لگائی تھی اور پھر اس کا بھی ایک معمولی حصہ ادا کیا گیا۔ مشرف، ظفر اللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز اور دوسری متعدد شخصیتوں نے ملنے والے 3 ہزار 486 تحائف میں سے نایاب تحائف اڑا لیے اور صرف 447 اشیاء چھوڑ گئے جن کی کوئی وقعت نہ تھی۔ صدر زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے بھی بیرونی دوروں میں ملنے والے تحائف کا بیشتر حصہ خود رکھ لیا۔ زرداری نے 6 کروڑ 20 لاکھ روپے قیمت کی اشیاء کے لئے صرف 93 لاکھ روپے ادا کیے۔ ایک سابق وزیراعظم کی بیوی لندن کے جوا خانے میں بیٹھی حالت سرشاری میں دائو لگاتی ہے اور صرف ایک گھنٹے میں 60 ہزار پائونڈ ہار کر اٹھتی ہے۔ ایک اور سابق وزیراعظم کلائی پر پونے 2 کروڑ روپے کی چمچماتی ہیروں سے مزین گھڑی پہنے گھومتے ہیں۔ انتہا ہے!! اور پھر ایک اور انتہا بھی ہے۔ عمران خان نے اپنے وفد کے ہمراہ گزشتہ دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستانی وزیراعظم کو انتہائی قیمتی شوپارڈ کمپنی کے ہیروں سے مزین گھڑی کا تحفہ دیا۔ انتہائی کامیاب دورے کے اختتام پر واپسی ہوئی اور اگلے ہی دن ایک کروڑ 65 لاکھ قیمت کا یہ بیش بہا تحفہ حکومتی خزانے میں جمع ہوگیا۔ عمران خان کی کلائی خالی ہے۔ انہیں موبائل فون وقت سے مطلع کرتا ہے۔ کیا دیوانہ وزیراعظم اللہ تعالی نے ہمیں نصیب کردیا ہے۔تو کیا امید رکھیں؟
 

شیئر: