Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران کے تو ستارے بدل گئے؟

کراچی (صلاح الدین حیدر) مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا جو منظور خدا ہوتا ہے۔ بہت پرانا شعر ہے لیکن آج بھی اس کی افادیت شروع کی طرح قائم و دائم ہے۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت میں خوبصورت انتخابی مہم چلائی۔ نتیجتاً وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز تو ہوئے لیکن مقبولیت میں بدرجہ تبدیلی آتی گئی۔ بلاول نے سخت تنقید کی اور کہا کہ سہانے خواب دکھا کر مہنگائی کی سونامی دینے والے سیاست کے اصول تک نہیں جانتے۔ ایک روپے کا نان (روٹی) یہی نیا پاکستان، یو ٹرن کا الزام شب و روز، چوبیس گھنٹے لگتا رہتا ہے۔ نفیسہ شاہ نے یہاں تک کہہ دیا یوٹرن لینے والے اب جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ عمران نے تو صرف ایک جملے میں وضاحت کی کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے۔قائد اعظم تک نے ایسا کیا۔ حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے قائدین کو بدلنا پڑتا ہے۔دراصل اس میں عمران کا قصور کم، ان کی پارٹی کا زیادہ تھا جس سے صدر عارف علوی سے لے کر فواد چوہدری، شہریار آفریدی تک سب نے یوٹرن کے دفاع کی رٹ لگادی لیکن جب قسمت کے ستارے کچھ اور کہہ رہے ہوں تو بگڑا کھیل بھی خود بخود بن جاتا ہے۔ قدرت نے عمران کی مدد کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بول پڑے اور ان کا یہ بیان کہ پاکستان کو 33 ارب ڈالردیئے۔ پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے 1.3 ارب ڈالر کی امریکی امداد بھی پاکستان کے لئے روک دی۔ عمران نے امریکی صدر کے الزامات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ٹرمپ کو تاریخ کے اوراق سے افادہ کرنا چاہیے۔پاکستان نے 33 ارب ڈالر نہیں 123 ارب ڈالر امریکہ کی جنگ میں جھونک د ئیے۔ 70 ہزار پاکستانی لقمہ اجل بن گئے۔ قبائلی علاقوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے تباہ و برباد کردیا گیا۔ آج بھی پاکستانی اپنی زمین اورفضائی راستے امر یکہ کے لئے مفت کھولے ہوئے ہیں۔ٹرمپ اور عمران کے درمیان الفاظ کی جنگ کچھ دیر قائم رہی لیکن خوشی کی خبر تو یہ ہے کہ صرف عمران نے امریکی صدر کے دباﺅ میں آنے کی بجائے، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا جس کو ملک بھر میں پذیرائی ملی۔
عمران کے قدیمی دشمن خواجہ سعد رفیق تک نے عمران خان کے بیان پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستانی موقف صحیح طور پر پیش کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے دوسرے رہنماﺅں جن میں رضا ربانی، خواجہ آصف نے بھی عمران کے بیانات کو سراہا بلکہ خود بھی امریکہ کو یاد دلایا کہ پاکستانیوں کی قربانی کے بغیر امریکا، افغانستان میں میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔عمران کہ اس جواب کو کہ اب جو کچھ بھی ہم کریں گے، قوم کے مفاد میں کریں گے اسے بھی بھرپور داد ملی کہ قومی مفاد کو سامنے رکھا گیا۔ عمران جو کل تک ہدف بہ تنقید تھے چند گھنٹوں میں ہی ہیرو بن گئے۔ پھر قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہ کمال ہم نے یا تو 50 کی دہائیوں میں اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں دیکھا تھا۔ سہروردی میں یا صرف 1955ءمیں انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ جہاں انہوں نے چین کے وزیراعظم آنجہانی چو این لائی سے ہاتھ ملا کر پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی، اور پھر 1956ءمیں برطانیہ اور فرانس کے سوئیز کنال پر حملے کے دوران پاکستان نے ان کا ساتھ دیا۔ ان کے بیان سے عرب ممالک میں پاکستان کے بارے میں تلخی تو ضرور پیدا ہوئی لیکن جلد سب ٹھیک ہوگیا۔ بھٹو نے جنوری 1972ءمیں امریکہ کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہونگے۔ یک طرفہ نہیں اور نہ ہی کوئی ڈکٹیشن تسلیم کی جائے گی۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے قومی امیدوں کی ترجمانی کرتے ہوئے دفاع معاہدے سیٹو اور سینٹو سے علیحدگی اختیار کی۔ جب قسمت ساتھ دیتی ہے تو ہر طرف سے ہی قدرت آسانیاں پیدا کر دیتی ہے۔ عمران کے ساتھ بھی یہی ہوا، ناقدین خاموش ہوگئے جب یہ پتہ چلا کہ سعودی عرب سے ایک بلین ڈالر پاکستانی خزانے میں آچکے ہیں۔دو تین روز میں مزید2 ارب ڈالر اس میں جمع ہوجائیں گے۔ عمران نے منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے بیرونی دوروں کا آغاز ارض مقدس سعودی عرب سے کیا تھا۔ سعودی عرب کا دورہ بہت کامیاب رہا اور پھر چین آئے اور اب ملائیشیا کا دورہ ظاہر ہے کہ مہاتیر محمد سے گفت و شنید کے کچھ تو مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ قوم کو مزید خوشخبری ملے گی۔
 

شیئر: