تنخواہوں اور دفتری عہدوں کے لحاظ سے سعودائزیشن
جمعرات 22 نومبر 2018 3:00
عبدالحمید العمری ۔ الاقتصادیہ
2011 ءسے 2015ءکے دوران نجی اداروں میں بڑے پیمانے پر سعودیوں کو ملازم رکھا گیا۔ پھر 2016ءسے 2018ءکے دوران یہ رجحان منفی شکل اختیار کر گیا۔ پہلے مرحلے میں سعودائزیشن کی شرح 10.4فیصد سے بڑھ کر 16.4فیصد تک ہوگئی۔ دوسرے مرحلے میں سعودائزیشن کی شرح میں کمی کے باوجود سعودائزیشن کی شرح بڑھتے بڑھتے 19.4فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ ریکارڈ2018 ءکی تیسری سہ ماہی کے اختتام تک کا ہے۔ سعودائزیشن میں اضافے کی وجہ ریکارڈ شکل میں غیر ملکی کارکنان کی تعداد میں کمی ہے۔1.8ملین غیر ملکی کارکن سعودی عرب سے رخصت ہوچکے۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ نجی اداروں میں پہلے مرحلے کے دوران سعودائزیشن کے جو اعدادوشمار ریکارڈ پر لائے گئے وہ کھوکھلے تھے۔ نجی ادارو ںنے فرضی سعودائزیشن کرکے گمراہ کیا تھا۔ دوسرے مرحلے میں سعودائزیشن کی شرح میں واضح کمی اسی کا نتیجہ تھی۔ دراصل نجی اداروں نے اصلاح حال کے تحت متعدد اقدامات کئے تھے جسکی وجہ سے سعودائزیشن کی شرح بڑھی تھی۔
پہلے مرحلے کے دوران بے روزگاری کی شرح برقرار رہی۔2011ءسے 2015ءکے دوران 11.2فیصد سے لیکر 11.5فیصد تک پہنچ گئی۔ پھر 2016ءسے 2018ءکے دوران تیزی سے اس میں اضافہ ہوا۔ بالاخر 2018ءکی دوسری سہ ماہی کے اختتام پر 12.9فیصد پر آکر ٹھہر گئی۔ وزارت محنت بے روزگاری کی شرح 2021ءتک 10.5فیصد تک کم کرنا چاہتی ہے۔ پھر 2030ءتک بے روزگاری کی شرح7.10فیصد تک لانا چاہتی ہے۔وزارت اس حوالے سے مختلف اقدامات کررہی ہے اور کرتی رہیگی۔ وزار ت باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت کام کررہی ہے۔ اب اسے نئی ٹھوس شروعات کرنی ہے۔ یہ پہلے سے مختلف بنیادوں پر ہوگی۔ اب اسے مختلف اداروں کی سرگرمیوں کو مدنظررکھ کر سعودائزیشن کے اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اسے دیکھنا ہوگا کہ دفتری عہدوں کی ترتیب کیا ہے۔ ماہانہ تنخواہوں کا سلسلہ کس قسم کا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دورن بیشتر فرضی وظائف ثانوی درجے کے تھے۔ ان اسامیوں کی تنخواہیں معمولی تھیں۔ فروغ افرادی قوت فنڈ نے بھی جزوی طور پر تنخواہوں کی ادائیگی میں حصہ لیا۔حقیقت میں سعودائزیشن نہیں ہوئی، یا معمولی درجے کی ہوئی۔ پھر جب فروغ افرادی قوت فنڈ نے سبسڈی کا سلسلہ بند کیا اور نجی اداروں میں فرضی سعودائزیشن والے سارے خانے پر ہوگئے تو ایسی حالت میں مزید سعودائزیشن کا دائرہ مسدود ہوگیا۔ وزارت محنت کے سامنے یہی تجویز رکھی جاسکتی ہے کہ اب وہ سعودائزیشن کے اسپیشلسٹ پروگرام متعارف کرائے۔ وہ دفتری ملازمتوں کی درجہ بندی کرے۔معمولی ، درمیانے اور اعلیٰ عہدوں کی تقسیم کرے۔اسی کے تناظر میں 2019ءسے 2021ءتک اپنے اہداف ترتیب دے۔ایسی ملازمتیں جن پر کام کرنے والوں کو ماہانہ 3ہزار ریال یا اس سے کم تنخواہ دی جاتی ہے اس قسم کی اسامیوں میں 11فیصد سعودی کام کررہے ہیں اور 761.2ہزارسعودی ملازم ہیں۔ یہ کل سعودی ملازمین کا 44.3فیصد ہیں۔ ان اسامیوں کیلئے سعودائزیشن کی شرح رفتہ رفتہ بڑھائی جائے۔ 2019ءسے شروعات 12فیصد سے ہو۔ پھر 2020ءمیں 14اور پھر 2021ءمیں 15فیصد تک کا ہدف مقرر کیا جائے۔ اسکے نتیجے میں مذکورہ دائرے میں 281.8 ہزار سعودی ملازم آئیں گے اور انکی مجموعی تعداد 1.04 ملین تک پہنچ جائیگی۔ یہ کل قومی عملے کا 38.6فیصد ہونگے۔ جہاں تک درمیانے درجے کی 3001 ریال اور اس سے زیادہ والی تنخواہوں والی اسامیوں کا تعلق ہے جن میں سعودی 51فیصد ہیں ۔سعودیوں کی تعداد 727 ہزار ہے۔ ان میں بھی تدریجی اضافہ کیا جائے۔2019ءمیں 65، 2020ءمیں 75اور 2021ءمیں 85فیصد تک کا ہدف مقرر کیا جائے۔
اعلیٰ درجے کی ملازمتوں پر فی الوقت 10ہزار یا اس سے زیادہ کی تنخواہ دی جارہی ہے۔ ان میں سعودائزیشن کا تناسب 48.8 فیصد ہے۔ 230.7ہزار سعودی کارکن اس سے منسلک ہیں۔2019ءمیں اس کی بابت 75فیصد، 2020ءمیں 85اور 2021ءمیں 95فیصد کا ہدف مقرر کرکے سعودائزیشن کا مشن انجام دیا جائے۔اس طرح 2021ءکے اختتام تک اعلیٰ عہدوں پر فائز سعودیوں کی تعداد 449.3ہزار تک پہنچ جائیگی۔ یہ کل سعودی عملے کا 16.6فیصد ہونگے۔اس کے لئے ہمیں نئی اسامیاں تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کی بدولت بے روزگاری کی شرح 2021ءکے اختتام تک 9.5فیصد تک رہ جائیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭