ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے، اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور ’’سراغِ زندگی‘‘ پا جانے کی کوشش کرے
* *ام عدنان قمر۔ الخبر * *
انسان کائنات کا سرتاج ہے بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان اورعملِ صالح پر کاربند ہو، اگر یہ ایسا کرے تو فرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا
سورۃ الذاریات،آیت56میں ارشادِ ربانی ہے: اور میں نے جن اور انسان اسی لئے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ توحید وعبادت انسان کا وہ بنیادی فریضہ ہے جس کی طرف دعوت دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے کتابیں اور صحائف نازل فرمائے اور مختلف اوقات و ادوار میں مختلف علاقوں میں انبیا و رسل علیہم السلام مبعوث فرمائے تاکہ وہ لوگوں کو عبادتِ الٰہی کی طرف تو جہ دلاتے اور اس کی یاد دہانی کرواتے رہیں چنانچہ قرآن کریم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تمام انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کا درس دیا تھا۔ سورۃ الانبیاء،آیت25 میں امام الانبیاء و خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفی سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔
نیز سورہ یٰسین (آیت60،61) میں ارشادِ الٰہی ہے:اے آدم کی اولاد! ہم نے تم سے کہہ نہیں دیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا (اس کی عبادت نہ کرنا) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا اور یہی وہ راستہ ہے جس کی طرف تمام انبیائے کرام ؑ لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزلِ مقصود، یعنی جنت تک پہنچانے والا عمل ہے۔
سورۃ الاعراف ،آیت59میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے کہ انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیسے خطاب فرمایا تھا:ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انھوں نے (ان سے) کہا: اے میری برادری کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب (ہی) کا ڈر ہے۔مگر شرک انسان کی عقل کو ماؤف کر دیتا ہے۔اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رہتی، تب انسان کو ہدایت، گمراہی اور گمراہی، ہدایت نظر آتی ہے، چنانچہ قومِ نوح علیہ السلام کو بھی یہی قلبِ ماہیت ہوئی۔ ان کو حضرت نوح علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف اپنی قوم کو دعوت دے رہے تھے، نعوذ باللہ گمراہ نظر آتے تھے۔
اسی طرح سورۃالاعراف65 میں قومِ عاد کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت ہود ؑ کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے:اور (اسی طرح) قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انھوں نے کہا کہ بھائیو! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کو ئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں؟
یہ قومِ عاد جن کی رہائش یمن میں ریتیلے پہاڑوں میں تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بے مثال تھی، ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام جو اس قوم کے ایک فرد تھے، اس قوم کے نبی بن کر آئے۔
اسی سورۃ الاعراف کی آیت73 میں قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے نبی حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے :اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا (تو ) صالح نے کہا کہ اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک معجزہ آچکا ہے (یعنی ) یہی اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے تو اسے (آزاد) چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت سے ہاتھ بھی نہ لگانا، ورنہ دردنا ک عذاب تمھیں پکڑ لے گا۔
سورۃالعنکبو ت16 میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے:اور ابراہیم کو (یاد کرو) جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔
سورۂ یٰسین 22 میں اسرائیل کے ایک شخص، جس کا نام مفسرین نے حبیب نجار ذِکر کیا ہے، کے یہ الفاظ منقول ہیں:اور مجھے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت و پرستش نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے؟
آپ اندازہ کریں کہ وہ کتنا نیک اور اﷲ کا عبادت گزار بندہ ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ ہود کی دوسری آیت میں امتِ مسلمہ کو حکم دیتے ہوئے نبی اکرم کی زبانِ مبارک سے فرمایا:(وہ یہ) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تمھیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والاہوں۔سورۂ بنی اسرائیل23 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اور تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دو نوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب سے کرنا۔
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کیساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے جس سے والدین کی اطاعت، ان کی حرمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ، یعنی ربوبیتِ الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعتِ والدین کے تقاضوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔سورۃالبقرہ133 میں ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے وفات کے قریب اپنے بیٹوں سے پوچھا:بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے پو چھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انھوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابرہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔
سورۃالزمر2 میں اللہ رب العالمین نے اپنے آخری نبی حضرت محمد سے مخاطب ہوکر فرمایا :(اے پیغمبر!) ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو اللہ کی عبادت کریں (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک سے) خالص کر کے۔
غرض تمام انبیا و رسل علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و عبادت کی دعوت دی تھی، حتیٰ کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآنِ کریم کو نازل فرمایا اور اپنے پسندیدہ دینِ اسلام کی تکمیل فرمائی اور اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ کو مبعوث فرمایا تو اپنی کتابِ خالد قرآنِ کریم میں یہ اعلان فرما دیا کہ جن و انس کی تخلیق کی غرض و غایت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے رب یعنی پروردگار کی حیثیت سے پہچانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور انسان وجنات کی تخلیق کا مقصدِ وحید ہی عبادت قرار پایا ہے، جیسا کہ سورۃ الذاریات کی آیت56 میں ارشادِ الٰہی ہے:اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ہر انسان جو عاقل وبالغ اور صاحبِ ہوش و خرد ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس سے سوال کرے، اپنے ضمیر کو ٹٹولے اور اپنے گریبان میں جھانکے بلکہ اپنے من میں ڈوب کر ’’سراغِ زندگی‘‘ پا جانے کی کوشش کرے اور اس کیلئے اپنے آپ سے پوچھے:٭میں اس دنیا میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟٭اس زمین پر میری ڈیوٹی کیا ہے؟٭مجھے ساری کائنات سے ممتاز کیوں بنایا گیا ہے؟
انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے، چاہے مومن ہو یا کافر کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے۔جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔
جب بحیثیت انسان، چاہے مسلم ہو یا کافر، اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری اور فوقیت و امتیاز حاصل ہے تو جب یہی انسان نہ صرف محض کلمہ گو مسلمان بلکہ باعمل مومن ہو تو اپنے ایمان و عمل اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ تمام مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے جس کا واضح ثبوت اسراء و معراجِ مصطفی کی جزئیات پر غور کرنے ہی سے مل جاتا ہے۔انسان اس پوری کائنات کا سرتاج ہے بشرطیکہ مکمل انسان، صاحبِ ایمان اور ساتھ ہی ساتھ عملِ صالح پر کاربند ہو، اگر یہ محنت و عبادت کر نے والا ہے تو فرشتوں سے بھی افضل ہوجائے گا۔غرض انسان کو چاہیے کہ اس فوقیت وبرتری اور امتیاز کا سبب تلاش کرے، اپنی تخلیق و پیدائش کا مقصد ڈھونڈے اور اپنی ڈیوٹی و ذمے داری کا سراغ لگا ئے۔ اہلِ ایمان وعمل کو تو اس کا جواب معلوم ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہر صانع کو اپنی مصنوعات کے بھید معلوم ہوتے ہیں کہ اس نے انھیں اس شکل و صورت میں کیوں تیار کیا ہے؟ انسان کا صانع یا خالق یعنی اس کا پیدا کرنے والا اور اس کے تمام ا مور ومعاملات کی تدبیر کر نے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا آیئے اپنے رب ہی سے پوچھ لیتے ہیں کہ:٭ اے اللہ! تونے اس کو کیوں بنایا؟٭کیا اسے صرف کھا نے پینے کیلئے بنایا گیا ہے ؟ ٭کیا اس کی تخلیق کا مقصد صرف لہو ولعب اور کھیل کود ہی ہے؟٭کیا اسے محض اس لئے وجود میں لایا گیا ہے کہ زمین پر چلے پھر ے اور زمین سے پیدا ہونے والی تمام اشیا کو بے دریغ استعمال کرے اور پھر مر کر مٹی ہو جائے اور قصہ ختم؟۔نہیں، ہر گز نہیں۔