آپ کو چند دن بعد پتا چلے گا
بالآخر وہی ہوا جس کا نہ صرف خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا بلکہ ’’بااختیار‘‘ حلقوں کی جانب سے اشاروں کے علاوہ پیش گوئی بھی کردی گئی تھی۔ ہوا یوں کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اچانک ملک بھر میں تحریک لبیک پاکستان کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع ہوا اور اس دوران پارٹی کی اعلیٰ قیادت، سینئر رہنماؤں سمیت سرگرم کارکنوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کردی گئیں اور دھڑا دھڑ گرفتاریاں کرکے انہیں بند کرنا شروع کردیا گیا۔
کہتے ہیں چوٹ اُسی وقت مارنی چاہیے جب لوہا گرم ہو، اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک شخص ایسا پہلے ہی رکھا ہوا ہے جو ہمہ وقت ’الفاظ‘ سے مسلح رہتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز فواد چوہدری عام حالات میں کبھی خاموش دکھائی نہیں دیے تو بھلا یہاں کیسے چپ رہ سکتے تھے۔ فوراً ہی ٹویٹ داغا کہ ’’خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے منتقل کیا گیا ہے، اس کارروائی کی ضرورت تحریک لبیک کے 25 نومبر کی احتجاجی کال واپس نہ لینے کی وجہ سے درپیش آئی۔ عوام کی جان و مال اور املاک کی حفاظت حکومت کا اولین فرض ہے‘‘۔ ابھی عوام اور میڈیا نے ابتدائی تصدیقی ٹویٹ پر تبصرے شروع ہی کئے تھے کہ موصوف نے ایک اور وضاحت جاری کردی جس کے مطابق ’’تحریک لبیک مسلسل عوام کی جان و مال کے لیے خطرہ بن گئی ہے اور مذہب کی آڑ لے کر سیاست کر رہی ہے ۔ موجودہ کاروائی کا آسیہ بی بی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔ عوام پر امن رہیں اور حکام سے مکمل تعاون کریں۔‘‘
سرکاری وضاحت کے بعد عوام کو معاملے کا اصل پتا چلا کہ ہوا کیا ہے۔ خادم حسین رضوی سمیت دیگر اہم رہنماؤں کو 30 دن کے لیے نظربند کردیا گیا۔ کئی افراد اڈیالہ جیل منتقل کیے گئے اور بڑی تعداد نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روپوشی اختیار کرلی۔ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کی اطلاعات کے بعد ہی کچھ مقامات پر تحریک لبیک کے کارکنان کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی جس میں چند افراد معمولی زخمی ہوئے۔ اس دوران پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی اور انتباہ جاری کیا کہ کسی کو بھی امن و امان خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تاہم دوسری جانب کچھ ذرائع سے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے اپنے مطالبے پر قائم رہنے کے اعلانات سامنے آتے رہے کہ25 نومبر (اتوار) کو اسلام آباد کے اہم مقام فیض آباد پر احتجاجی دھرنا ہر صورت دیا جائے گا جسے تحفظ ناموس رسالت جلسے کا نام بھی دیا جا رہا تھا جبکہ اسی دوران راولپنڈی میں بھی آسیہ بی بی کی عدالت عظمیٰ سے بریت کے خلاف ایک جلسے کا اہتمام کیا جانا تھا۔ صورت حال سے نمٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کنٹینرز لگا کر راستے بند کردیے اور بھاری نفری تعینات کردی۔
موجودہ صورت حال میں دیکھا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کو پہلے ہی سمجھایا جا رہا تھا کہ اپنے مطالبات پر نظر ثانی کی جائے اور پرتشدد جلسے جلوسوں کا راستہ اختیار کرکے عوامی جان و مال کو نقصان پہنچانے کے بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپنائی جائے تاہم اس کے باوجود ٹی ایل پی کی جانب سے نہ صرف یکطرفہ بلکہ ڈٹ جانے والے موقف کا اظہار کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پہلے ہی واضح کہا جا چکا تھا کہ آئندہ اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اس سے آہنی ہاتھوں سے اور قانون ہی کے مطابق نمٹا جائے گا۔دوسری جانب گزشتہ دنوں لندن میں ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈ ریزنگ پر گئے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی واضح اشارہ دے دیا تھا تاہم تحریک لبیک کی قیادت نے اسے اہمیت نہ دیتے ہوئے اپنے مظاہرے یا جلسے کی کال واپس نہ لی اور بالآخر حکومت کو اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے کارروائی کرنی پڑی۔
واضح رہے کہ ایک صحافی نے چیف جسٹس سے سوال کیا کہ ہمیشہ عدلیہ کے خلاف جب بھی کسی نے بات کی، اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاثر یہ ہے کہ سیاست دانوں کو مثلاً نہال ہاشمی اور فیصل رضا عابدی کو عدلیہ کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہوئی، لیکن مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں عدلیہ کیوں خاموش دکھائی دیتی ہے؟ جو الفاظ انہوں نے (تحریک لبیک پاکستان نے) استعمال کیے، کفر کے فتوے دیے، حاضر سروس جرنیلوں کے بارے میں جو کچھ کہا، اس پر عدلیہ خاموش کیوں ہے؟۔ جواب میں چیف جسٹس نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بارے میں آپ کو چند دن کے بعد پتا چلے گا اور پھر یوں ہوا کہ پوری دنیا نے اس پیش گوئی کو عملی طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ملک کی معاشی حالت تو خراب ہے ہی، ایسے میں گزشتہ ہفتے ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے بعد ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ حکومت اور دیگر اداروں یا سیاسی جماعتوں جماعتوں میں کوئی بڑا اختلاف یا جھگڑا سامنے آئے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی منفی صورت حال پیدا ہو جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکے، عدالتی فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، حکومتی اقدامات پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر ہمارے رہنماؤں کو حالات اور صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی دور اندیشی دکھاتے ہوئے ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ اپنی بات بھی کہہ دیں اور ملک یا ملکی نظام کے خلاف کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔