Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکی مساجد کی تاریخی حیثیت؟

فاتن محمد حسین ۔ المدینہ
سعودی وژن 2030 اہم محاذوں، زندہ معاشرہ، خوشحال معیشت اور مستقبل پسند وطن پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ سعودی ولی عہد نے وژن کو بروئے کار لانے کیلئے تمام اسٹراٹیجک اور عملی اسکیمیں مہیا کردی ہیں۔اس ضمن میں قومی تبدیلی پروگرام 2020 ،معیاری طرز حیات پروگرام قابل ذکر ہیں۔ ولی عہد کے وژن کا دائرہ تفریحی ، ثقافتی اور اسپورٹس سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ انہو ں نے تاریخی مساجد کی اصلاح و مرمت کے ذریعے روحانی ماحول برپا کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔
سعودی ولی عہد نے حال ہی میں تاریخی مساجد کی تعمیر نو کے پروگرام کے تحت 130مساجد کو نئے روپ اور نئی شکل میں پیش کرنے کا پروگرام دیا ہے۔ یہ پروگرام سعودی محکمہ سیاحت و قومی آثار اور وزارت اسلامی امور ودعوت کے تعاون و اشتراک سے روبعمل لایا جارہا ہے۔ مساجد کی اصلاح و مرمت کے پروگرام کا دائرہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب کے تمام علاقوں خصوصاً مکہ مکرمہ کی مساجد بھی اس میں شامل ہیں۔مکہ مکرمہ ریجن کی مسجد سلیمان علیہ السلام اور مسجد البجلی بن مالک کی بھی اصلاح و مرمت ہوگی۔ یہ دونوں طائف میں واقع ہیں۔
میں اپنے قارئین کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ مکہ مکرمہ میں اسلامی تمدن کی عکاس متعدد مساجد موجود ہیں۔ انکی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہ مساجد اسلامی تمدن کی آئینہ دار ہیں۔ یہ اس درجے کی ہیں کہ انہیں عالمی ورثے میں شامل کیا جائے۔ انکی ترمیم اور اصلاح پر سعودی عرب کی واہ واہ بھی ہوگی۔ یہ مساجد عرب تمدن کے لازوال تاریخی نقوش ہیں جنکا احترام ہر ثقافت کے لوگ کرتے ہیں۔ دین اسلام میں مساجد کا رتبہ بیحد بلند ہے۔ مکہ مکرمہ میں 11سے زیادہ تاریخی مساجد پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مسجد بیعت العقبہ ہے۔ یہ جمرات کے پل کی جانب واقع ہے۔اسے اصلاح و مرمت کی ضرورت ہے۔ شاہ عبداللہ رحمة اللہ علیہ نے اس تاریخی مسجد کے اطرا ف احاطہ بنوا کر اسے برقرار رکھا۔ یہاں مسجد الحدیبیہ ہے جو الشمیسی میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ اس کے نشانات زیر زمین ہیں ۔ اس پر پڑی ہوئی مٹی ہٹوا کر اس کا احیاءکرنا ہوگا۔ اس طرح مسجد الفتح ہے۔ یہ اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخلے سے قبل خیمہ نصب کیا تھا۔ یہ جموم میں ہے۔ اسی طرح مسجد الرایہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 8ھ میں فتح مکہ کے موقع پر اپنا پرچم نصب کیا تھا۔ مسجد الکوثر اور مسجد القبش بھی ہیں۔ یہ دونوں مساجد منیٰ میں ترقیاتی توسیعی منصوبے کے تحت کافی پہلے منہدم کی جاچکی ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ کاش ان دونوں مساجد کو انکی اپنی جگہ محدود شکل میں ہی کیوں نہ ہو قائم کیا جائے۔
مسجد الخیف، مسجد نمرہ اور مسجد المشعر الحرام اپنی جگہ قائم ہیں۔ کاش سعودی وژن 2030کے تحت انہیں سال بھر کھولا جائے۔ 30ملین معتمر و حاجی مملکت آئیں گے تو انہیں یہ مساجد سال بھر دیکھنے کا موقع بھی ملنا چاہئے۔ میقات کی مساجد بھی اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ انہیں بھی شایان شان طریقے سے بنانا سنوارنا بیحد ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: