بوڑھا سکھ گھڑی ساز کا میری رسٹ واچ پر جُھکا سر ایک لحظے کے لئے لرزا اور پھر اس نے اوپر میری طرف غور سے دیکھا۔ اپنی گدلی آنکھ سے اس نے مونوکل اتارا اور مجھ سے سوال کیا ’’پھر کہو منڈیا! کون سے گائوں سے ہو تم؟‘‘ میں نے اپنے آبائی دیہہ کا نام دہرایا، پھر سکوت تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتری۔ ’’کس کے کیا لگتے ہو؟‘‘ اس کا دوسرا سوال تھا۔ میں نے اپنے والد صاحب کا نام بتایا۔ پھر ایک بار لمبا سکوت تھا۔ اس کی نم آلود آنکھوں کی نمی آنسو بنی۔ تو تُو میرا بھتیجا ہے۔ میرے یار کا پُتر! اور وہ نالہ گھان وہیں پر ہے؟ اور اس کے کنارے بابا دیوان کا مزار اور اس کا سبز ذخیرہ؟ اور وہ مولوی کامل بھی ابھی ہے ناں؟ اور وہ نالہ گھان کے کنارے ریت پر اب بھی بچے کبڈی کھیلتے ہیں؟ اور کیا شیخ اور مجّا قصائی اب بھی اپنے کتوں کی لڑائی کراتے ہیں؟ سوال کرتے کرتے اس کا گلا رندھ گیا۔ میں حیرت زدہ اس سفید مو انسان کے سامنے بیٹھا اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا جہاں یادوں کی بارات اسے بچپن کی دھندلی راہوں پر کھینچ لے گئی تھی۔ سوال اتنے تھے میں فوراً جواب کیسے دیتا۔ اس نے مونوکل اور میری گھڑی ایک طرف کردیئے اور چہرہ آگے بڑھا کر میری طرف یوں چاہت سے دیکھنے لگا جیسے اُسے میرا برسوں انتظار رہا ہو۔
یہ 1973ء کا کینیا تھا۔ میں وہاں بہ سلسلہ ملازمت مقیم تھا۔ کلائی کی گھڑی رُک گئی۔ سوچا کہ کسی گھڑی ساز کو دکھائی جائے۔ دارالحکومت نیروبی کی مرکزی شاہراہ کینیاٹا ایونیو پر گھڑیوں کی ایک دکان پر نظر پڑی۔ ایک بوڑھا سکھ بیٹھا تھا۔ اس نے فٹافٹ مونوکل چڑھایا اور میری گھڑی کھول کر اس پر جُھک گیا۔ میں قریبی اسٹول پر بیٹھ گیا۔ گفتگو کا آغاز ہوا۔ پنجابی کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اس کی زبان پر پوٹھوہار کا رنگ غالب تھا۔ اس کے سوال پر میں نے اپنے بارے میں بتایا۔ جہلم کے نام پر ایک لحظے کے لئے گفتگو میں وقفہ آیا اور پھر اس نے میرے گائوں کا نام پوچھ لیا اور تبھی میرے جواب پر اس کے جذبات میں تلاطم اٹھا تھا۔ اسی نے گائوں کے تقریباً ہر معمر فرد کے بارے میں سوال کیا تھا۔ چند ایک ملک عدم کو سدھار چکے تھے۔ ان کی موت کا سن کر وہ یوں ملول ہوا تھا جیسے وہ اس کے اپنے خاندان کے افراد تھے۔ پھر اس نے اپنی کہانی کہی۔ 1908ء میں پیدا ہونے والے ہرنام سنگھ کے بچپن اور لڑکپن کو گائوں کی فرحت انگیز فضائیں میسر آئی تھیں۔ غروبِ آفتاب سے تھوڑا قبل نالے گھان میں سب ملتے۔ بدن پر تیل کی مالش کے بعد کسرت کی جاتی اور پھر کبڈی کا دور چلتا۔ شام کا جھٹپٹا پر پھیلاتا تو الہڑ بدن نالہ گھان کے خنک پانی میں چھلانگیں لگاتے۔ چند ایک نالہ پار کرتے اور کنارے پر بابا مولو کے رہٹ پر آبشار کی طرح فراٹے بھرتی گرتی پانی کی دھار تلے جا بیٹھتے۔ یوں پوٹھوہار کی ایک ننھی سی بستی میں ہرنام سنگھ نے بڑے الہڑ انداز میں ہنستے کھیلتے شب و روز بسر کیے۔ پھر تقسیم ہند اور وہ اپنی بیوی اور 2 چھوٹے بچوں کے ہمراہ دریائے خون پار کر کے جالندھر پہنچا۔ بے سرو سامانی تھی اور واسطہ ہندوئوں سے پڑ گیا۔ زندگی میں سکون لوٹ کر نہ آیا۔ کچھ عرصے بعد مشرقی افریقی ریلوے کے لئے افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو وہ بحری جہاز پر جا چڑھا۔ ریلوے کی پٹڑی بچھائی جارہی تھی۔ وہ افریقی مزدوروں کا نگران مقرر کیا گیا اور آج اپنی داڑھی سفید کیے میرے سامنے بیٹھا اپنے بچپن اور مسلمان ساتھیوں کو یاد کر کے بلک رہا تھا۔ ان برسوں اور لوح یاد پر متحرک سایوں کو یاد کر کے سسکتا تھا جو اس کی زندگی کا سرمایہ تھے۔ اس دریائے خون کا ذکر ملال سے کرتا تھا جو واہگہ کی سرحد پر انہیں رستے میں پڑا تھا۔
ماہرین تاریخ کے مطابق تقسیم ہند پر پنجاب میں ہونے والی نقل مکانی دنیا کی عظیم ترین ہجرتوں میں سے ایک ہے۔ یہ سب نہ ہوتا اگر 3 جون 1947ء کو پنجاب اسمبلی کے سامنے ملکہ وکٹوریہ کے مجسمے کے سائے میں کھڑا ہوکر ماسٹر تارا سنگھ اپنی کرپان نیام سے نکال کر یہ اعلان نہ کرتا کہ پاکستان اس کی لاش پر بنے گا۔ تبھی قتل عام کا آغاز ہوا تھا جو اگلے کم از کم 4 ماہ تک ہوتا رہا۔ سکھوں کے 2 اہم ترین مذہبی مقامات پنجہ صاحب، حسن ابدال اور کرتارپور پاکستان کے حوالے کردیئے گئے تھے چنانچہ ان کے نزدیک مسلمانوں کو ختم کرنا عین ثواب تھا۔ چنگاری پھوٹی اور ماس ہسٹریا بنی۔ انتہائی ناقابل یقین انداز میں تشدد ہوا۔ قتل عام، آتشزنی، بڑے پیمانے پر اغواء، زیادتی اور تلوار کے زور پر مذہب کی تبدیلی جیسے واقعات ہوئے۔ کم از کم 75 ہزار عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔۔ ہزاروں نوجوان مسلمان بچیاں سکھوں نے اغوا کرلیں اور انہیں گھر ڈال لیا۔ پھر بقیہ زندگی وہ اپنے اغوا کنندگان کی نسلوں کو جنم دیتی رہیں۔ پنجاب کی تقسیم نے اس انسانی المیے کو جنم دیا تھا۔ یہ سب نہ ہوتا اگر سکھ راہنما ماسٹر تارا قائد اعظم کے سنہری مشورے کو مان لیتا۔ بابائے قوم نے اسے کہا تھا کہ وہ پاکستان سے الحاق کر لے یوں پنجاب ایک صوبے کے طور پر اپنا وجود قائم رکھ سکے گا۔ قائد نے اسے یقین دلایا تھا کہ ایک صوبے کے طور پر پنجاب کو پاکستان ہر طرح کی آزادی اور خود مختاری دے گا۔ لیکن ماسٹر تارا سنگھ کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ اگر پنجاب ایک صوبہ رہ کر پاکستان سے الحاق کرلیتا تو تاریخ کا وہ شرمناک ترین واقعہ بھی ہرگز نہ رونما ہوتا جو یکم جون تا 8 جون 1984ء کے دوران امرتسر گولڈن ٹمپل میں ہوا۔ نووجیت سنگھ سدھو میرے یار! پلڑے 2 ہیں ایک میں حسن ابدال اور کرتارپور میں تمہارے مندر زمین کے سینے پر پھولوں کی طرح کھڑے مہک رہے ہیں اور دوسرے پلڑے میں گولڈن ٹمپل ہے جو ابھی تک خالصہ خون میں ڈوبا ہے۔ آج ہم وہ سارا خون تمہیں معاف کرتے ہیں جو تمہارے آباواجداد نے ہمارے آباواجداد کا تشکیل پاکستان کے وقت بہایا تھا باقی تم خود عقلمند ہو!!