Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی 20میں سعودی عرب ... وقار اور وزن

عبداللہ بن بجاد العتیبی ۔ الشرق الاوسط
ارجنٹائن میں منعقدہ جی ٹوئنٹی میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی موثر شرکت مملکت کے خلاف مہم جوﺅں کو بڑی بھاری پڑ گئی۔سعودی ولی عہد کے خلاف نجی تشہیری مہم چلانے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سعودی عرب کو جی 20میں اس قدر پذیرائی ملے گی۔ عالمی رہنماﺅں نے بڑھ چڑھ کر شہزادہ محمد بن سلمان سے مصافحہ کیا۔ سعودی عرب کے ساتھ اپنے ممالک کے تعلقات پر تبادلہ خیال اور باہمی تعاون کے مواقع پر گفت و شنید میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا اہتمام کیا۔ ہر ایک اس بات کا آرزو مند نظر آرہا تھا کہ اسے سعودی ولی عہد کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔ مشترکہ تعلقات کو فروغ دینے کا موقع ملے۔ عالمی رہنما سعودی ولی عہد کو وژن 2030کے خالق اور نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ 
خاشقجی کے بحران کے بعد سعودی ولی عہد نے پہلا بیرونی دورہ خلیج اور خطے کے ممالک پہنچ کر کیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر اور تیونس کے دورے کرکے قطر اور خطے کے اس کے اتحادیوں کے خلاف مشترکہ عرب موقف برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ الاخوان المسلمون اور سنی و شیعہ دہشتگرد جماعتوں کے خلاف کمر بستہ رہنے کی تاکید کی گئی۔
پوری دنیا اور صحافیوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے اور انکی ہر نقل و حرکت کی تصویر کشی تصاویر کے ذریعے بھی کی اور وڈیو کلپس پیش کرکے بھی کی۔ طاقتور ممالک کے ممتاز رہنماﺅں نے کانفرنس ہال کے ایوانوں ، دالانوں میں بھی ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ گفت و شنید کا سلسلہ بھی قائم رکھا۔عالمی رہنماﺅں نے مشہور ابلاغی وسائل اور خبررساں اداروں کی تشہیری مہم کو پس پشت ڈال کر سعودی عرب کے ساتھ اپنے ملکوںکے مفادات کو مدنظر رکھا۔ انکے پیش نظر سعودی عرب کی موجودہ حیثیت ہی نہیں بلکہ مستقبل کی سعودی پوزیشن بھی انکے پیش نظر تھی۔
سعودی عرب اور اسکے نوجوان قائد کے خلاف عداوت کا پرچم بلند کرنے والے تمام ممالک، تنظیموں اور اداروں کو جی 20میں انکی سرگرمیوں سے بڑی مایوسی ہوئی۔ انہیں یہ دیکھ کر کہ سارا جہاں اور اسکے عظیم قائدین سعودی ولی عہد کی پذیرائی کررہے ہیں اپنی شکست سامنے نظر آئی۔ جس ملک نے مملکت اور اسکے نوجوان قائد کے خلاف تشہیری مہم کی قیادت کی تھی اس نے اپنے صدر کے بجائے وزیر خارجہ کو کانفرنس میں بھیجنے پر اکتفا کیا۔ وزیر خارجہ سعودی ولی عہد کی نشست و برخاست اور گفت و شنید کے مناظر کو تاکتے رہے۔ وہ سعودی ولی عہد کی طرف توجہ طلب انداز میں مسکرا کر خود سے ملاقات کے اشارے کے منتظر رہے۔
سعودی ولی عہد نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سربراہ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی۔ امریکہ 7عشروں سے سعودی عرب کا اتحادی ہے۔ انہوں نے روسی صدرپوٹین سے ملاقات کی جو دنیا کے دوسرے طاقتور ملک کے سربراہ ہیں۔ وہ چینی صدر سے ملے جو دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت کے قائد ہیں۔ انہوں نے برطانوی وزیراعظم اور فرانس کے صدر سے ملاقاتیں کیں۔ فرانسیسی صدر نے سعودی عرب سے متعلق اپنے ملک کی پالیسی اور موقف پر روشنی ڈالی۔جرمن چانسلر نے بھی کانفرنس کے ایوانوں میں سعودی ولی عہد سے ملاقات کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے ارجنٹائنی صدر ، جنوبی کوریاکے صدر اور انڈونیشیا کے نائب صدر سے بھی ملاقات کی۔ دیگر ممالک کے سربراہوں سے بھی انکی گفت و شنید ہوئی۔
جی 20نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سعودی عرب بین الاقوامی اقتصاد میں انتہائی اہم شریک ملک ہے۔ وہ عالمی استحکام میں انتہائی اہمیت کا مالک ہے۔ مملکت کے خلاف تمام تشہیری مہم بے معنی ثابت ہوگئی۔ معاندانہ پروپیگنڈہ کرنے والوںکو منہ کی کھانا پڑی۔
کانفرنس شروع ہونے سے قبل امریکی وزیر خارجہ ، امریکی وزیر دفاع اور ان سے قبل امریکی صدر ، چینی صدر اور دیگر رہنماﺅں نے محمد بن سلمان کے حوالے سے مثبت اور خوشگوار تاثرات کا اظہار کیا۔ عرب نوجوان سعودی عرب کے اس ماڈل کو کامیاب دیکھنے کے آرزو مند ہیں جو سعودی ولی عہد نے پیش کیا ہے۔ سعودی نوجوان تخریب کاری اور انارکی والے ناقابل قبول نمونوں سے تنگ آچکے ہیں۔
جی 20نے پوری دنیا کو جتا دیاکہ سعودی عرب عظیم عالمی ریاست ہے۔ موثر طاقت کا مالک ہے۔ اس کے خلاف پروپیگنڈہ فضا میں تحلیل ہوچکا ہے۔ سعودی عرب پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور، زیادہ محترم، زیادہ باوقار اور مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: