سپریم کورٹ نے زیر التوا معاملات میں عدلیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے اور عدالتی نظام پر تنقید کرنے کے لئے مرکزی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ کے جسٹس مدن بی لوکر کی سربراہی والی بینچ نے مرکزی حکومت کو متنبہ کیا کہ’’ آپ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے اور انصاف میں تاخیر کی بات کرکے عدالت پر سوال اٹھاتے ہیں۔‘‘ جسٹس لوکر نے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل امن لیکھی سے سخت لہجے میں کہاکہ’’ حکومت سے کہئے کہ وہ عدالتی نظام پر تنقید کرنا بند کرے۔‘‘ سپریم کورٹ کے فاضل جج کا یہ تبصرہ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب ایودھیا تنازع اور سبری مالا مندر کے معاملے میں سنگھ پریوار کے لوگ عدالت پر چراغ پا ہیں۔ سنگھ پریوار کے سڑک چھاپ لیڈر ہی نہیں بلکہ خود وزیراعظم نریندرمودی اور حکمراں جماعت کے صدر امت شاہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو کسی بھی طورپر قابل قبول نہیں۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ سب سے بڑی عدالت کو آنکھیں دکھارہے ہیں اور ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ہمارے عدالتی نظام کے لئے انتہائی مضرہیں۔ ملک میں ابھی تک کوئی ایسی نظیر موجود نہیں ہے کہ اتنے ذمہ دار عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لئے عدالتوں کو نشانے پر لیا ہو۔ ظاہر ہے عدالتیں کسی کا سیاسی ایجنڈا پورا کرنے کے لئے وجود میں نہیں آئی ہیں بلکہ ان کا مقصد ملک میں انصاف کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ ایک ایسے دور میں ان عدالتوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے جب حکومت یکطرفہ انصاف کی روش پر گامزن ہو اور ملک کے کمزور طبقوں کے دستوری حقوق سلب کرنے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔
وزیراعظم نریندرمودی نے گزشتہ ہفتے راجستھان کے شہر الور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ایودھیا تنازع کی سماعت سے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ یقینا وزیراعظم کے وقار کے قطعی منافی تھا۔ یہ بیان پوری طرح سیاسی مقاصد سے لبریز تھا اور اس میں سپریم کورٹ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنی حریف جماعت کو نشانہ بنایاگیا تھا۔انہوں نے ایودھیا تنازع کو طے کرنے میں ہورہی تاخیر کے لئے کانگریس اور اس کے وکیل لیڈر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس عدالتی نظام میں دخل دے کر ایودھیا تنازع کو جلدی حل کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ جب ایودھیا کا کیس چل رہا تھا تب کانگریس کے ایک لیڈر اور ممبرپارلیمنٹ نے کہا تھا کہ 2019تک یہ کیس مت چلاؤ کیونکہ 2019میں چناؤ ہیں۔ وزیراعظم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ بھی الزام لگایا کہ جب کوئی جج ان وکیلوں کی بات نہیں سنتا تو کانگریس نے سپریم کورٹ کے جو وکیل راجیہ سبھا میں بٹھائے ہیں وہ ان ججوں کو مواخذے کا خوف دلاتے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بیان عین اس وقت دیا تھا جب ایودھیا میں دھرم سبھا کے نام پر آر ایس ایس کی انتخابی ریلی ہورہی تھی۔مقصد ان سادھو سنتوں کو مطمئن کرنا تھا جو رام مندر کی تعمیر کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے جمع ہوئے تھے۔
وزیراعظم نریندرمودی نے الور کی ریلی میں کانگریس کے جس لیڈر کو نشانے پر لیا وہ مشہور وکیل کپل سبل ہیں جو سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازع پر سنی سینٹرل وقف بورڈ کی طرف سے پیش ہوئے تھے اور اس پیشی سے کانگریس کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ انہوں نے ایودھیا تنازع پر سماعت 2019تک ٹالنے کی بات اپنے مؤکل کے ایما پر کہی تھی لیکن بی جے پی نے اسے کانگریس کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا وسیلہ بنالیا۔ وزیراعظم نریندرمودی اگر ایماندار ہوتے تو وہ الور کی ریلی میں سنگھ پریوار کے ان لیڈروں کو نشانہ بناتے جو ایودھیا معاملے میں بے سر پیر کی باتیں کررہے ہیں۔ وزیراعظم کو ان لیڈروں سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایودھیا کا تنازع جب تک عدالت سے فیصل نہیں ہوجاتا اس وقت تک ایودھیا میں کوئی بھی سرگرمی غیر قانونی سمجھی جائے گی لیکن اس کے برعکس انہوں نے اپنی بندوق کا رخ اپنے سیاسی حریفوں کی طرف کردیا تاکہ وہ اس معاملے میں خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرسکیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازع پر سماعت مؤخر کی ہے تبھی سے سنگھ پریوار کے لوگ عدالت کو مسلسل نشانہ بنارہے ہیں۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں نے لگاتار ایسے بیانات دیئے ہیں جو توہین عدالت کے ذیل میں آتے ہیں لیکن وزیراعظم نے ان لیڈروں کو قانون اور آئین کے دائرے میں رہنے کا سبق پڑھانے کی بجائے کانگریس کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری سمجھا۔ ان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایودھیا تنازع پر سماعت کانگریس کے دباؤ میں مؤخر ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے لوگ سپریم کورٹ کو مسلسل دباؤ میں لینے اور اپنی مرضی کا فیصلہ صادر کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ عدالت نے کسی بھی قسم کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے پہلے ہی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ایودھیا تنازع کا فیصلہ ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر کرے گی۔
حکمراں جماعت کے لوگ کس طرح عدالتوں کو نشانہ بنارہے ہیں، اس کا اندازہ پچھلے دنوں بی جے پی صدر امت شاہ کے اس بیان سے بھی ہوا تھا جو انہوں نے کیرل کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر دیا تھا۔ کیرل کنّور ضلع میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ’’ عدالتوں کو غیر عملی ہدایات نہیں دینی چاہئے اور ایسے ہی احکامات صادر کرنے چاہئے جن پر عمل درآمد ممکن ہو۔‘‘